Terhawan Ghanta - Article No. 2399

Terhawan Ghanta

تیرہواں گھنٹہ - تحریر نمبر 2399

چار پانچ دن سے وہ اضطراب سا محسوس کر رہا تھا۔ ایک عجیب سی بے چینی اور احساس اسے گھیر لیتا۔ ایسے لگتا جیسے دو آنکھیں اسکا تعاقب کر رہی ہیں۔ وہ ادھر ادھر دیکھتا مگر ہجوم میں سمجھ نہ پاتا کہ کس کی آنکھیں اسکا طواف کر رہی ہیں۔

جمعرات 28 مارچ 2019

فاطمہ عمران
پچھلے چار پانچ دن سے وہ اضطراب سا محسوس کر رہا تھا۔
ایک عجیب سی بے چینی اور احساس اسے گھیر لیتا۔

(جاری ہے)

ایسے لگتا جیسے دو آنکھیں اسکا تعاقب کر رہی ہیں۔

وہ ادھر ادھر دیکھتا مگر ہجوم میں سمجھ نہ پاتا کہ کس کی آنکھیں اسکا طواف کر رہی ہیں۔
آج تو اس نے پی بی کم تھی۔ ہلکے ہلکے سرور میں اچانک اسکی نگاہ ایک آدمی پر پڑی جو بظاہر سب سے لاتعلق دور کھڑا نیچے زمین پر اپنے جوتوں کو گھور رہا تھا۔
پھر
اس نے نیچے بیٹھ کر جوتوں سے کچھ جھاڑنا شروع کر دیا۔
زآرعون اٹھا اور ایک انجانے سے جذبے کے زیر اثر اس کی طرف کھچتا چلا گیا۔
اس آدمی نے نظر اٹھا کر دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا "ہیلو ینگ مین ! تو تم نے مجھے ڈھونڈ ہی لیا۔
"کون ہو تم؟" زآرعون بولا

"مددگارہوں تمہارا" اس آدمی نے متانت سے جواب دیا۔

لیکن زآرعون سنی ان سنی کرتے ہوئے بولا۔

"تم مجھے گھور کیوں رہے تھے اتنے دنوں سے؟"

"میرے پیچھے آؤ ۔

سب بتاتا ہوں"

اور ہلکے ہلکے سرور میں ڈوبا زآرعون اسکے پیچھے چل پڑا۔

ہوٹل سے نکل کر دونوں سڑک پر آ گئے۔ کئی گلیاں اور موڑ مڑنے کے بعد وہ آدمی اسے ایک اندھی گلی میں لے آیا جہاں نسبتا اندھیرا تھا۔
زآرعون نشے میں تھا لیکن ابھی اتنا بھی بیگانہ نہ ہوا تھا کہ اسکا ماتھا نہ ٹھنک جاتا

" کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو؟ میرے پاس کوئی رقم نہیں جسے تم لوٹنا چاہتے ہو۔

"

اس آدمی نے زآرعون کی بات پر کوئی ردعمل نہ ظاہر کیا اور دھیمے سے بولا۔

"میں 'ہیلر'(healer) ہوں۔ کائنات کے شگاف بھرتا ہوں۔ "

اسکی بات زآرعون کو مضحکہ خیز لگی اور اب کی بار وہ نسبتاً لڑکھڑاتے ہوئے بولا۔

۔ "دوست میں دل کے شگاف نہیں بھر پا رہا اور تم کائنات کے شگاف بھر رہے ہو۔
واہ "

" تم چاہو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں" اجنبی بولا۔

"کیسی مدد؟تم کیا جانو مجھے کیا چاہیے۔؟"زآرعون نے تنک کر کہا۔

"تمہیں تاشی کا ساتھ واپس چاہیے"

زآرعون نشے ، حیرانی اور شک کی کیفیات کے بیچ ڈول گیا۔

اور خالی خالی نظروں سے اس آدمی کو گھورنے لگا۔اس آدمی نے اپنی بات جاری رکھی" اگر تمہیں میری مدد چاہیے تو ٹھیک دو دن بعد یہیں ملنا" اور اسکے بعد لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اسکے بعد زآرعون کو کچھ ہوش نہ رہا۔ آنکھ کھلی تو خود کو بستر پر پایا۔
ذہن پر زور دینے کے باوجود اسے کچھ یاد نہ تھا کہ وہ گھر کیسے پہنچا؟ لیکن اس آدمی سے ملاقات کا حرف بحرف اسے یاد تھا۔
کیا
نہیں تھا اسکے پاس؟ سب کچھ تو تھا۔ بس ایک دل ہی نہ تھا پہلو میں. نہیں نہیں دل بھی تھا۔
مگر اس دل میں حرارت نہیں تھی ۔ ۔ ۔ جذبات کی۔
۔ ایسے دل کو بنجر دل کہنا ٹھیک ہو گا۔لیکن یہ دل ہمیشہ سے بنجر نہیں تھا۔
کبھی
اس میں محبت کی ہریالی تھی۔ جذبات کی مہک تھی اور لاتعداد شگوفے تھے جو تاشی کو دیکھتے ہی ایک نہ سنائی دینے والی 'پٹک' کے ساتھ پھوٹ پڑتے۔
تاشی کے سنگ زندگی اتنی حسین تھی کہ مستقبل کے سنہرے سپنوں میں گم روشن حال کی رعنائیاں سمیٹتے ہوئے اسے معلوم ہی نہ پڑا کہ کب اسکی دنیا اچانک درہم برہم ہو گئی۔
تاشی نے طلاق مانگی تھی۔

"مجھے تم سے طلاق چاہیے۔ میں تمہارے ساتھ مزید گزارا نہیں کر سکتی۔

" یہ الفاظ نہیں بم تھے اور اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا "کیا؟؟" حالانکہ وہ "کیوں؟" کہنا چاہتا تھا۔
مگر اس کیوں کی گتھی بھی تاشی نے خود ہی سلجھا دی۔
"دیکھو زآرعون ۔ہم ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے۔ جانتے ہو میں تم سے کہتی تھی کہ میاں بیوی پزل کے دو ٹکڑے ہوتے ہیں۔
ایک کی کمی کو دوسرا پورا کرتا ہے مگر تمہارے پاس ایسا کوئی ٹکڑا نہیں جو میرے خلا کو بھر سکے۔
"

اور اسکے بعد تمام الفاظ نے اپنی تاثیر کھو دی۔

تاشی یک لخت اسکے سارے جذبات بےرونق کر گئی۔ وہ کیا کرتا؟ بےوفائی کا علاج نہیں بس مرہم ہوتا ہے۔
اور یہی مرہم ڈھونڈنے وہ روز اس ہوٹل سے ملحقہ بار میں آ جاتا تھا۔
اور تب تک جام تنہائی اپنے اندر انڈیلتا جاتا جب تک ہوش و خرد سے بیگانہ نہ ہو جاتا۔

دن بھر وہ اجنبی سے ملاقات کے بارے میں سوچتا رہا اور رات ہوتے ہی تاشی کا غم پھر سے اس کے سنگ تھا۔
نشے میں اس نے چلانا شروع کر دیا ۔"او تاشی تم مجھے کیوں چھوڑ کر چلی گئی۔
تم کہتی تھی نا کہ میاں بیوی دو ساز ہیں ۔ ۔
انکے تال میل سے ہی زندگی کا گیت سر بکھیرتا ہے تو پھر تم نے میرا گیت کیوں ادھورا چھوڑ دیا؟یہ دیکھو آج بھی میرے پاس وہ ٹشو پیپر محفوظ ہے جس پر تمہاری انگلی پر کٹ لگ جانے کیوجہ سے نکلنے والا خون محفوظ ہے۔
دیکھو دیکھو یہ دیکھو۔ جیب سے ٹشو پیپر نکال کر وہ ہسٹریائی انداز میں خود کلامی کرتا جا رہا تھا۔
تیسرے دن وہ جلدی جلدی تیار ہو کر ہوٹل جا پہنچا۔
اس دن نشے کی کیفیت میں اسے راستے صحیح سے یاد نہیں تھے اس لیے اسے پورا یقین تھا کہ وہ آدمی اسے ہوٹل میں مل جائے گا۔
اور اسکا یقین صحیح ثابت ہوا۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد اسے وہ آدمی دکھائی دے گیا۔
اس آدمی نے بھی اسے دیکھ کر اشارہ کیا۔ اور وہ اٹھ کر اس آدمی کے ساتھ چل پڑا۔
آج زآرعون نشے میں نہیں تھا سو اس آدمی سے اس دن جو بہت کچھ پوچھنا رہ گیا تھا وہ آج سارا کا سارا پوچھ لینا چاہتا تھا۔

سڑک پر اکا دکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ آدمی اسی گلی میں جا کر رک گیا۔

زآرعون پھر سے پوچھنے ہی والا تھا کہ وہ آدمی کون ہے اور اس سے کیا چاہتا ہے؟ کہ وہ آدمی ہلکے سے مسکرایا اور بولا

"تمہیں بتایا تو تھا۔

کہ میں ہیلر ہوں۔ کائنات کے شگاف مندل کرتا ہوں۔ " زآرعون کا ہاتھ جیب کی طرف بڑھا جہاں اس نے احتیاطا آج اپنی گن چھپائی تھی۔
کہ اس آدمی نے کہا"فکر نہ کرو تمہیں اس گن کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
آؤ میں تمہیں سب سمجھاتا ہوں" اس دفعہ تو زآرعون واقعی گڑبڑا گیا۔
اجنبی
کیسے جانتا تھا بھلا کہ اس کے پاس گن ہے ؟ اس آدمی نے بات جاری رکھتے ہوئےکہا

"یہ کائنات پرت در پرت اک راز ہے اور اس کائنات کا سب سے بڑا راز جانتے ہو کیا ہے؟ " پھر جواب کا انتظار کیے بغیر ہی بولا۔

"سچ! اس کائنات کا سب سے بڑا راز سچ ہے۔ میرا سچ۔
تمہارا سچ۔ ۔ ہم سب کا سچ۔ ۔ ہر شے اور ہر چیز کا سچ۔
۔ ۔ یہ کائنات انہیں سچائیوں سے مل کر بنی ہے۔
اور ہر سچ کی اپنی ہی اک سمت ہے اور اپنی ہی اک دنیا۔
ہزاروں سچ ایک جھرنے کی مانند ساتھ ساتھ بہتے ہیں۔لیکن تمہارا سچ وہی ہے جہاں تم موجود ہو ۔
کسی
کے ایک سچ میں جینے کا مطلب یہ ہے کہ اسکے لیے باقی سچ ساکت ہو جائیں گے۔
اس دنیا میں تاشی تمہیں چھوڑ کر جا چکی۔

Browse More Urdu Columns