Talaq K Mukadma Me Miya Biwi Sulah Nama Ho Gaya - Article No. 2157

Talaq K Mukadma Me Miya Biwi  Sulah Nama Ho Gaya

طلاق کے مقدمے میں میاں بیوی کے درمیان راضی نامہ ہوگیا! - تحریر نمبر 2157

جج صاحب نے ان کو لے کر وہاں پہنچے مقدمہ طلاق کا تھا ایک کارخانے کے کاریگر نے عرضی دی تھی کہ میری بیوی بہت بدمزاج ہے ہاتھ چھٹ بھی ہے تکرار اور مارپیٹ کرتی ہے

جمعرات 4 جنوری 2018

ابنِ انشاء:
اخبار خواتین کے ابنِ انشاء صاحب نے پچھلے دنوں ادیب صحافی شاعر اور مزاح نگار کی حیثیت چار ہفتے تک عوامی جہموریہ چین کا دورہ کیا واپسی پر وہ بہت کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن چونکہ ایک ہفتے بعد انہیں جاپان کے دورے پر روانہ ہونا تھا اس لیے وہ اس ارادے کی تکمیل نہ کرسکے اور سنانے پر ہی اکتفا کرگئے انہوں چین کی عورت کو جس حال میں دیکھا اور اس کے بارے ان کے جو تاثرات ہیں وہ ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کررہے ہیں یہ برا سرسری سا جائزہ ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ اس سے عظیم چین کی اس عظیم ہستی کے خدوخال ضرور سامنے آجاتے ہیں جس کا نام عورت ہے۔
ایک پاکستانی بزرگ چین تشریف لے گئے کئی روز وہاں کوچہ و بازار میں گھومتے پھرے واپسی سے ایک روز پہلیہ اپنے دوست سے پوچھا کیوں جناب کیا چین میں عورتیں نہیں ہوتیں۔

(جاری ہے)

ان کے دوست نے کہا خیر باشند آپ کیسی بات کررہے ہیں؟ذرا پنے سوال کی معقولیت پر غور فرمائیے۔کہنے لگے بے شک یہ میں بھی جانتا ہوں کہ عورت کے بغیر محفل ہستی کو نمود نہیں ہوسکتی فی الحال انسان ڈھالنے کی مشین اور کارخانے نہیں بنے لیکن اگر عورتیں ہیں تو کہاں ہیں کیا ان کو پردے میں رکھا جاتا ہے؟“یہ واقعہ پیکنگ کے پاکستانی سفارت خانے میں ایک صاحب نے سنایاممکن ہے یہ داستان نہ ہو زیب داستان ہو لیکن مقصود ان کے کہنے کا یہ تھا کہ چین میں عورتوں اور مردوں کے لباس میں کوئی فرق نہیں وہی بند گلے کی جیکٹ وہی پتلون ایک سا جوتا نہ سرخی نہ لپ اسٹک نہ بندے نہ جھومر نہ غرارہ نہ ساڑھی نہ دوپٹہ نہ پرس۔

یہ سچ ہے میں خود جاتے ہوئے اپنی ہینڈی کرافٹ شاپ سے موتیوں کا ایک پرس لے گیا تھا خیال یہ تھا کہ کوئی بیگم ادیبہ ملیں گی یا کسی ادیب کی بیگم کو نذر کروں گا تو خوشی ہوگی لیکن وہاں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر آخر ایک پاکستانی خاتون کے حوالے لے کر آیا وہاں تو کوئی خاتون سودا سلف لینے کو نکلے تو زیادہ سے زیادہ کپڑے یا پلاسٹک کا تھیلا ساتھ ہوتا ہے اور بس بایں ہمہ وقت یہ بات مبالغہ ہے کہ عورت اور مرد کی پہچان نہیں ہوسکتی حسن درغنائی وہاں بہت ہے ایسے ایسے چہرے نظر آئے کہ بس اور پھر چہروں کا حسن صحت اور شادابی سے عبارت ہوتا ہے کسی مصنوعی مدد کا محتاج نہیں۔
ایک جگہ کچھ خواتین غازہ پوتے بھڑنے کے لیے لباس پہننے نظر آئیں تو تحقیق پر معلوم ہوا کہ بے شک چینی ہیں لیکن سمندر پار کی چینی سنگاپور سے سیر کے لیے یہاں آئی ہوئی ہیں کسی چینی کو لاغر دیکھیے یا کسی کا پیٹ بڑھا ہوا پائیے تو یہ بھید کھلے گا کہ یہاں کا متوطن نہیں باہر سے آیا ہوا ہے سارے چین میں کسی مرد یا عورت کو لاغر نہ پایا اسپتالوں میں بہت کم مریض ہوتے ہیں وارڈ کے وارڈ خالی پڑے رہتے ہیں کوئی بیمار ہو تو آئے،عورتیں دوسرے بہت سے ملکوں میں بھی کام کرتی ہے لیکن جیسی چین کی طرح نہیں کام کرنے میں عورت اور مرد کا کوئی فرق نہیں عورتیں بھاری مشینیں چلاتی ہے کاریں اور ٹرک چلاتی ہے دکانیں اور کارخانے چلاتی ہیں کھیتوں میں ہل چلاتی ہے سڑکیں بناتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ بڑے بڑے بوجھ اٹھاتی اور کھینچتی ہیں،چین کی ایک بات جو ہمارے سمجھ میں نہیں آتی یہ بھی ہے کہ ایک مرد یا عورت اتنا بوجھ کیسے کھینچ لیتی ہے جس کے لیے ہمارے ہاں گھوڑے کی ضرورت ہو ایک ریڑھا لوہے کی سلاخوں یا سرخ اینٹوں یا اناج کی بوریاں سے لدا ہوا ہے اور ایک شخص بڑے آرام سے اسے کھینچے یا دھکیلے جارہا ہے اگر اتنا سامان ہو جتنا ہمارے ہاں اونٹ گاڑی میں عموماً ہوتا ہے تو ایک مرد یا عورت اسے کھینچ رہی ہوتی اور ایک یا دو اور مرد یا عورت اس کی مدد کررہے ہوں گے لیکن ہانپتے کانپتے نہیں بڑے اطمنیان اور آرام کے ساتھ جیسے خالی چل رہے ہوں مویشی یا باربرداری کے جانور ہمیں خال خال ہی نظر آئے زیادہ بھاری کاموں کے لیے ٹرک اور ٹریکٹر ہیں لیکن زیادہ تر بار کشی انسان کرتے ہیں بعض حالتوں میں سائیکل یا سائیکل گاڑیاں بھی استعمال ہوتی ہے کارخانوں میں کام کرنے والوں میں عورتوں کا تناسب تیس پینتیس فی صد ہوتا ہے بعض اوقات اسپتالوں میں تو کچھ مریض ہوتے بھی ہیں عدالتیں بالکل ہی خالی رہتی ہیں بعض اوقات ہفتوں کوئی کیس نہیں ہوتا ایک پاکستانی دوست جو قانون سے دلچسپی رکھتے ہیں کوئی عدالت دیکھنا چاہتے تھے پیکنگ کی عدالت عالیہ کے چیف جج نے کہا کہ بھیا ہمارے ہاں تو بہت دن سے کوئی کیس نہیں لگا ہاں فلاں گاؤں میں ایک مقدمہ ہے وہ چل کے دیکھ لو چیف جج صاحب نے ان کو لے کر وہاں پہنچے مقدمہ طلاق کا تھا ایک کارخانے کے کاریگر نے عرضی دی تھی کہ میری بیوی بہت بدمزاج ہے ہاتھ چھٹ بھی ہے تکرار اور مارپیٹ کرتی ہے میری بڑھیاں ماں کا خیال نہیں کرتی میں اس سے علیحدگی چاہتا ہوں وہاں اشٹام وغیرہ کا رواج نہیں سادہ کاغذ پر لکھ کر عرضی دے دیجیے یا پوسٹ کردیجیے دوسرے تیسرے روز عدالت بیٹھ جائے گی اور عموماً ایک ہی دن میں فیصلہ ہوجاتا ہے وکیل بھی پارٹ ٹائم ہیں ان کو فیس یا مشاہرہ حکومت کی طرف سے ملتا ہے اور ان کا کام مدعی یا مدعا علیہ کی جانچ کرنا نہیں بلکہ قانون کی تشریح کرنا ہوتا ہے خیرتو یہ لوگ اس گاؤں میں پہنچے تو عدالت شروع ہوگئی تھی کوئی عبا قبا تھی نہ اونچی کرسی نہ جج کا ہتھوڑا ایک میز کے گرد جج بیٹھا تھا ساتھ ہی مدعی بیٹھا چائے پی رہا تھا اور سگریٹ کا دھواں اڑارہا تھا اس کے علاوہ دو آدمی اس کے کارخانے کی انتظامیہ کے دوسری طرف اس کی بیوی اور بیوی کے کارخانے کے دو آدمی ان آدمیوں نے دونوں کے حق میں شہادتیں دیں کہ محنتی کارکن ہیں البتہ بیوی کے کارخانے والوں نے کہا کہ یہ بی بی مزاج کی تیز ہیں کبھی کبھی مغلوب الغضب ہوجاتی ہے۔
بیوی نے اس الزمات کو تسلیم کیا کہ بے شک میرا مزاج بگڑا رہتا ہے لیکن میرا میاں شام کو دیر سے گھر آتا ہے ڈراما دیکھنے چلا جاتا ہے یا اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے اس کی ماں کا خیال بے شک میں نے کبھی نہیں کیا کیونکہ میری ماں بچپن میں انتقال کرگئی تھی مجھے معلوم ہی نہیں ماں کیا ہوتی ہے اب البتہ مجھے احساس ہواہے کہ میں غلطی پر ہوں مرد نے بھی کہا کہ میں جلدی گھر آجایا کروں گا وہیں بیٹھے بیٹھے راضی نامہ ہوگیا جج نے کہا میں وقتاً فوقتاً تمہارے گھر آکر دیکھا کروں گا کہ تم لوگوں کا ایک دوسرے سے کیسا سلوک ہے معلوم ہوا کہ اسی نوے فیصد صورتوں میں فیصلہ راضی نامے کی صورت میں ہوتا ہے ہمارے ہاں ایسا ہوتووکیل اور ان کے دلال رشتہ دار اور اہل کار عرضی نویس اور وثیقہ نویس بھوکے مریں یا دوسری نوکریاں اور روز گار ڈھونڈ تے نظر آئیں۔

Browse More Urdu Husband And Wife