Be Chari Diwarain - Article No. 2294

Be Chari Diwarain

بے چاری دیواریں - تحریر نمبر 2294

کسی زمانے میں شاعر حضرات دیواروں سے بڑا سُلجھا ہوا کام لیا کرتے تھے مثلاً محبوب کے ہجروفراق میں دیواروں سے باتیں کرنا اور سر پھوڑنا،

جمعہ 26 اکتوبر 2018

ڈاکٹر تنویر حسین
کسی زمانے میں شاعر حضرات دیواروں سے بڑا سُلجھا ہوا کام لیا کرتے تھے مثلاً محبوب کے ہجروفراق میں دیواروں سے باتیں کرنا اور سر پھوڑنا،اگر محبوب گھر سے باہر نہ نکلتا تو ا س کے گھر کی دیوار کے ساتھ آئینے کی طرح کھڑے ہو جانا اور اگر کوئی میر صاحب کی طرح زیادہ ہی آرام طلب ہوا تو وہ محبوب کے انتظار میں اس کے گھر کی دیوار کے سائے تلے کھڑا ہوجاتا تا کہ اسے وصل سے قبل ہی سن سٹروک نہ وہ جائے۔

مگر آج دیواروں کے ذمے اقوام وملل کی بد آموزی کا کام ہے ۔
دیواریں جہاں اشتہارات لکھنے اور چپکا نے کے لیے بڑی موزوں ہیں ۔وہاں یہ ان گدھوں اور کُتوں کے لیے بھی بڑی مفید ہیں ،جو چلتے چلتے دیوار کی آڑ میں اپنے فرغالِ مثانہ کی رودادلکھ جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہمارے معاشرے میں بچے کو اپنی معصومیت اور بچپنا دور کرنے کے لیے کسی جہاں دیدہ شخص کے آگے زانوئے تلمذتہ نہیں کرنا پڑتے بلکہ اس کی خدمت کے لیے ہزارہا دیوار ہائے سایہ دارراہ میں ہے ۔

ان دیواروں کو کالا کرنے والی کمپنیاں وہ ہیں ،جوکالے علم کی کاٹ کی ماہر ہیں ۔
یعنی جن کا کوئلوں کی دلالی میں خوب منہ کالا ہو چکا ے ۔کمپنی کے مالکان اپنی کمپنی کی تمام کمزوریاں پکا سوسٹائل میں دیوار پرانڈیل دیتے ہیں ۔دیواروں پر مسائل ِ حیات اور مسائلِ جبروقدر اس خوب صورتی اور جامعیت سے سمجھائے ہوتے ہیں کہ آدمی اس سوچ میں غرق ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی خطوطِ غالب پر گزارے یا اختروسلمیٰ کے خطوط پر ۔

آپ بس یا ویگن میں سفر کررہے ہوں یا پیدل چل رہے ہوں ۔آپ اپنے دائیں بائیں کی تمام دیواروں کو اپنے دکھ سکھ میں برابر شریک پائیں گے۔لاہور کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے ہوئے آپ پر بہت سے رازاز خود منکشف ہوتے نظر آتے ہیں ۔مثلاً ایک نوشتہ دیوار ملا حظہ کیجئے․․․․الف دین مرچ مرچنٹ یہ اطلاع دینا اپنا قومی اور دینی فریضہ سمجھتا ہے کہ ہماری دکان کی مرچیں سوفیصد خالص ہیں ۔
ہم لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکتے ۔ہم کھرامال بیچتے ہیں اور کھوٹا اور ملاوٹ شدہ مال بیچنے والوں پر لعنت ملامت کے قائل ہیں ۔ہماری مرچوں کا نتیجہ ہنڈیا سے لے کر معدے تک ہمیشہ معیاری نکلتا ہے ۔ایک سیراکٹھی مرچیں خرید نے والے کوہینگ مفت ۔اس سنہری بلکہ سرخ موقعے سے فائدہ اٹھائیں ۔پہلے آئیں ،پہلے پائیں !
ایک اشتہار اور ملا حظہ فرمائیے․․․․․پہلی بار دولھا بننے والے متوجہ ہوں ۔
بارات لے جانے کے لیے ہماری خدمات حاصل کیجئے ۔گھوڑے ،ہاتھی اور بگھی کا بازار سے ارزاں انتظام ۔ہاتھی کا آرڈر ایک ہفتہ پہلے دیجیے۔بریک ڈانس کرنے والی گھوڑی بھی دستیاب ہے ،اس کے علاوہ فلمی ڈانس کرنے والی بچھیری بھی کرائے پر مل سکتی ہے۔
پہلی دفعہ میٹرک فیل طلبہ کے لیے گولیاں۔ایک گولی۔ایک سوال ! ہم آپ کا دکھ سمجھتے ہیں ۔ آپ ہی قوم کا مستقبل ہیں۔
ہمیں علم ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم ناقص ہے لیکن آپ کا حافظہ اور یادداشت بھی تو کمزور ہے ۔ہمارے مطب نے آپ کی سہولت کے لیے حافظے کی ایسی گولیاں تیا رکی ہیں کہ آپ کو امتحان کی تیاری میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ایک گولی اور ایک سوال کے جذبے کے تحت ہمارا مطب آپ کا منتظر ہے ۔پہلی مرتبہ میٹرک امتحان دینے والوں کے لیے فی شیشی دس روپے اور کمپارٹ حاصل کرنے والے طلبہ کو مزید رعایت۔

دیواری اشتہارات آنکھوں کے راستے اس سُرعت سے دل پراثر کرتے ہیں کہ آدمی کو اپنے نیک اعمال بھی امراض کی صورت اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔مثلاً شوگر کا علاج ایک ماہ میں ،بواسیر کا علاج ایک ہفتے میں ۔ایک بار آزما کر تو دیکھں ،کالی یا گوری کھانسی کا مکمل خاتمہ ،قبض کُشایادِل کُشا گولیاں ،محبوب آپ کے قدموں میں ،آپ کے تمام راز پوشیدہ رکھے جائیں گے ۔
ہم دورانِ سفر دیواری اشتہارات پر اپنی آنکھیں اس لیے نہیں دھرتے کہ معززینِ علاقہ کہیں ہمارے تقوے پر ہی شک نہ کرتے پھریں ۔ویسے اب ان اشتہارات میں ہمارے لیے کوئی چاشنی بھی نہیں کیوں کہ انھی دیواری اشتہارات نے ہمیں اپنی محبت کی گھنی چھاؤں تلے خوب پالا ہی نہیں بلکہ ڈھالا بھی ہے ۔ہاں البتہ غیر لوگ ان اشتہارات کو کوہِ طور کا سُر مہ ڈال ڈال کر پڑھتے ہیں ۔
اس طرح غیروں کی نظر میں ہمارا بچہ بچہ منقولہ اور غیر منقولہ بیماریوں کا وارث ٹھہرتا ہے ۔
اس وقت ان اشتہارات کا لطف دوآتشہ ہوجاتا ہے ۔جب ان اشتہارات کی جگہ صوبائی ،قومی اور بلدیاتی امیدواروں کا دردِ جگر اور دردِ قولنج قومی درد کے واٹر کلر میں دیوار پر مَل دیا جاتا ہے ۔قومی اسمبلیوں کے امیدواروں کے جگر میں تو پوری قوم کا درد ہوتا ہے ،اس لیے وہ اپنے نام کے ساتھ علامہ اقبال کے اشعار لکھوانا نہیں بھولتے ۔
مثلاً
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
قوشاہیں ہے ،بسیر ا کر،پہاڑوں کی چٹانوں میں
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
امیدواروں کی شہرت کی کلر سکیم اور مکھن پورہ سکیم میں بعض پینٹروں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے ۔مثلاً وہ اپنی طبیعت اور برش کے زور پر اس قسم کے اشعار کا بھی ایک آدھ ”کوٹ “کر دیتے ہیں ۔

خنجر چلے کہیں پہ تڑپتے ہیں ہم ”غریب“
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
صوبائی امیدواروں کا درد تو صوبے کی آخری محصول چونگی پر پہنچ کر عوام الناس کو خدا حافظ کَہ دیتا ہے ،اس لیے وہ اپنے نام کے ساتھ جن اشعار کا انتخاب کرتے ہیں ،ان کا کینوس بھی قدرے چھوٹا ہوتا ہے ۔مثلاً
مراطریق امیری نہیں ،فقیری ہے
امیدوار بے خوف اور خنجر بکف جیسے محبت بھرے الفاط لکھوا کر اپنے ووٹروں کے دل ایڈوانس ہی جیت لیتے ہیں ۔
جب انتخابات اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں تو طبی اور سفلی اشتہارات دوبارہ دیواروں کی ”زینت امان“بننا شروع ہوجاتے ہیں ۔اب پہلے اشتہارات کی باقیات اور نئے اشتہارات کا سفوف کچھ یوں بنے گا۔امیدوار فلاں فلاں۔انتخابی نشان۔شوگر۔امیدوار فلاں فلاں ۔منشور ۔کالی کھانسی کا مکمل خاتمہ ،غریبوں کا ہمدرد ۔ہمدرد گر ائپ واٹر۔اب کی بار۔
ڈار ہی ڈار، جب ڈار صاحب پر سفلی برش پھر جاتا ہے تو عبادت یوں نکھر کر سامنے آتی ہے ۔اب کی بار۔بواسیر کا علاج ۔بعض دفعہ ”آوے ای آوے“کے آگے”محبوب آپ کے قدموں میں “لکھ کر سیاست کو محبت میں بدل دیا جاتاہے ۔
زیادتی اس امیدوار کے ساتھ ہوتی ہے ،جس کا نام تو دیوار پر رہنے دیا جاتا ہے مگر اس کے نجی اوصاف کی جگہ قبض ،گنٹھیا اور رعشہ لکھ دیا جاتا ہے ۔
اس طرح کے اشتہارات لکھوانے والی کمپنیوں کے مالکان کی روح کے اندر جب خیالات متلا طم ہوں تو انھیں اپنے کردار وگفتار کے اُسلوب پر قابو نہیں رہتا ۔ان کی نگہ اتنی بلند اور جاں پُر سوز ہوتی ہے کہ وہ زمین وفلک ،پہاڑ ،دریا ،سورج اور چاند کو بھی اشتہارات قرار دیتے ہیں ۔ان کے بس میں ہوتو یہ کپڑا بنانے والی ملوں کے ساتھ مل کر کپڑوں کے ایسے ایسے نمونے تیار کراوئیں ،جن میں سے کسی پرتو چین ہیلتھ ہوم لکھا ہواور کسی پر اس قسم کی ”بیعت بازی“
”اس قوم کے امراض ہیں حد درجہ خطر ناک“
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
اس سرمہ طوری سے ہے روشن یہ زمانہ
گولی ہوکہ کیپسول سب ابلیس کی ایجاد
جگہ جگہ اس قسم کے اشتہارات دیکھ کریہ خیال ہوتا ہے کہ حبیب بینک پلازہ،سٹیٹ بینک کی عمارت ،جی پی او،الفلاح بلڈنگ ،واپڈا ہاؤس ،غیر ملکی سفارت خانے اور اس ٹائپ کی ”متحدہ عرب عمارات “ان
کے چغتائی آرٹ سے کیسے بچ گئیں ۔

Browse More Urdu Mazameen