Character Ki Qeemat - Article No. 2246

Character Ki Qeemat

کریکٹر کی قیمت! - تحریر نمبر 2246

ایک قلندر کی بات نے ہمیں پانی پانی یوں کیا کہ سڑک کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے ایک دریا کو موڑ سائیکل سے عبور کرنے کے دوران راہ چلتے اس مرد قلندر سے ہم یونہی پوچھ بیٹھے کہ حضرت اس سڑک کے کون سے حصے میں پانی کم گہرا ہے تاکہ ہم عین منجھدھار میں چلنے کے بجائے اسی راہگذر کو اپنائیں۔ اس پر اس مرد قلندر نے ہمیں اس سمت چلنے سے منع کیا

ہفتہ 4 اگست 2018

کل کی غیر منصفانہ بارش کے دوران ایک قلندر کی بات ہمیں پانی پانی کر گئی اس بارش کو ہم نے غیر منصفانہ اس لئے کہا کہ یہ کہیں ہوئی ہے اور کہیں نہیں ہوئی۔ اور ایک قلندر کی بات نے ہمیں پانی پانی یوں کیا کہ سڑک کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے ایک دریا کو موڑ سائیکل سے عبور کرنے کے دوران راہ چلتے اس مرد قلندر سے ہم یونہی پوچھ بیٹھے کہ حضرت اس سڑک کے کون سے حصے میں پانی کم گہرا ہے تاکہ ہم عین منجھدھار میں چلنے کے بجائے اسی راہگذر کو اپنائیں۔

اس پر اس مرد قلندر نے ہمیں اس سمت چلنے سے منع کیا، جس سمت ہم جار ہے تھے کہ بقول ان کے اس طرف پانی گہرا تھا اور فرمایا کہ بائیں جانب فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چلیں سو ہم نے ان کے اس مشورے کو پلے باندھا اور ابھی چند قدم ہی گئے تھے کہ موٹر سائیکل ایک گڑھے میں گر کر یوگاکے انداز میں سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر کے گھڑا ہو گیا اور یوں اس مرد قلندر کی بات ہمیں واقعی پانی پانی کر گئی۔

(جاری ہے)

نہ صرف پانی پانی کر گئی بلکہ ”تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن میرا نہ من“ کی تفسیر بھی تسلی بخش طور پر سمجھائی گئی۔ کیونکہ اس عمل کے دوران نہ صرف یہ کہ ہم سچ مچ پانی پانی ہو گئے بلکہ اس اجنبی گڑھے کے سامنے”جھکنے“کے باعث تھوڑی دیر کے لئے ہمیں پاؤں من من کے لگے۔ اس ناپسندیدہ ورزش سے فراغت کے بعد ہم نے مڑ کر یکھا تو یہ مرد قلندر کھڑا دانت نکال رہا تھا تب ہم پر یہ بھید کھلا کہ یہ شخص مرد قلندر ذرامخولیا ہے، اور انہی مخولیوں کی وجہ سے لاہور والے ”زندہ دلانِ لاہور“کہلاتے ہیں۔
لیکن جو سچ پوچھوتو صرف ان مخولیوں ہی کی وجہ سے لاہور کے شہری زندہ دلان لاہور نہیں کہلاتے بلکہ یہ شہراپنی روح میں خود بھی خاصا مخولیا واقع ہوا ہے۔ چنانچہ حق تو یہ ہے کہ اس شہر کو زندہ دل کہنا ڈنڈی مارنے کے مترادف ہے۔ مثلاََ یہ شہر سب سے بڑا مخول تو یہ کرتا ہے کہ خود کو ”عروس البلاد“یعنی شہروں کی دلہن کہلاتا ہے اور اس دلہن کا یہ عالم ہے کہ اس کا دامن جگہ جگہ سے تارتا ر ہے، اس کی سڑکوں میں گڑھے پڑے ہوئے ہیں، اس کے نلکوں میں پانی نہیں آتا، اس کی بجلی کبھی آتی ہے اور کبھی چلی جاتی ہے، سیوریج اس کا ٹھیک نہیں ہے اوپر سے سوئی گیس اور ٹیلی فون والے جو آئے روز پھاوڑے اور کدالیں لے کر اس کے ”دوالے“ہو جاتے ہیں بس یوں سمجھیں کہ یہ دلہن گنٹھیا،کالی کھانسی ، آشوب چشم و دیگر امراض میں مبتلا ہے لیکن چونکہ ذرا مخولیا واقع ہوئی ہے اس لئے عروس البلاد کہلاتی ہے۔

مگر دوستو!یہ سطور لکھتے ہوئے ہمیں اچانک خیال آیا کہ ہم اس عروس البلاد سے کچھ زیادتی کر گئے ہیں کیوں کہ دلہن اگر بیمار شمار رہتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی قدروقیمت سے انکارکر دیا جائے کہ اصل چیز تو کریکٹر ہے۔ اس کی وضاحت کچھ اس لطیفے سے ہوگی جس کے مطابق ایک شخص بھینس خریدنے کے لئے بازار گیا، بیوپاری نے اسے ایک بھینس دکھائی اور کہا یہ روزانہ بیس سیر دودھ اور سال میں ایک کٹا دیتی ہے اوراس کی قیمت دس ہزار روپے ہے۔
پھر اس نے دوسری بھینس دکھائی اور کہا یہ دودھ دیتی ہے اور نہ ”کٹا“دیتی ہے اس کی قیمت بیس ہزار روپے ہے۔ یہ سن کر گاہک پریشان ہوا اور متجس ہوا کہ معاملہ کیا ہے چنانچہ اس نے حیرت بھرے لہجے میں بیوپاری سے پوچھا”بھائی صاحب یہ کیا معاملہ ہے کہ جو بھینس روزانہ بیس سیر دودھ اور سال میں ایک کٹادیتی ہے، اس کی قیمت دس ہزار روپے ہے۔ اور جو نہ کٹا دیتی ہے اور نہ دودھ دیتی ہے، اس کی قیمت بیس ہزار روپے ہے؟یہ سن کر بیو پاری نے گاہک کی سوچ یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا”صاحب بہت افسوس کی بات ہے، آپ کی نظروں میں کریکٹر کی کوئی قیمت ہی نہیں؟“ سومعاملہ یوں ہے کہ عروس البلاد لاہورکی قیمت بھی اس کے کریکٹر ہی کی وجہ سے ہے یوں اس کی ذات سے وابستہ جن تلخیوں کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے، انہیں فراموش ہی کردینا چاہیئے کہ اس کے بعد یہ سب چیزیں فروعی ہو کر رہ جاتی ہیں۔

Browse More Urdu Mazameen