Five Star Hotel - Article No. 2231

Five Star Hotel

فائیوسٹار ہوٹل - تحریر نمبر 2231

سفید پوش وہ ہے جو ماسی برکتے کے تندور سے کھانا کھا کر نکلے اور ہوٹل ہلٹن کے باہر کھڑے ہوکر خلال کرتا پایا جائے ۔ مگرکچھ سفید پوش ایسے بھی ہیں جن کا ”مفتا“ اگر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں لگ جاءتو وہ وہاں سے کھانا کھا کر نکلتے ہیں اور عادتاََ ماسی برکتے کے تندور کے سامنے کھڑے ہو کر خلال کرنے لگتے ہیں۔

جمعرات 17 مئی 2018

سفید پوش وہ ہے جو ماسی برکتے کے تندور سے کھانا کھا کر نکلے اور ہوٹل ہلٹن کے باہر کھڑے ہوکر خلال کرتا پایا جائے ۔ مگرکچھ سفید پوش ایسے بھی ہیں جن کا ”مفتا“ اگر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں لگ جاءتو وہ وہاں سے کھانا کھا کر نکلتے ہیں اور عادتاََ ماسی برکتے کے تندور کے سامنے کھڑے ہو کر خلال کرنے لگتے ہیں۔ خود ہمارا شمار ابھی انہی سفید پوش میںہوتا ہے مگر ہم میں اور دوسرے سفید پوشوں میںفرق یہ ہے کہ مختلف میٹنگوں اور کانفرنسوں وغیرہ کے دوران ہمیں فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوتا ہے لیکن کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ہم عادتاََ نہیں احتیاطََ چائے کسی بابو ہوٹل میںجا کر پیتے ہیں، احتیاط اس لیے کہ کانفرنس کے منتظمین بسا اوقات صرف کمرے کا کرایہ اور کھانے کا بل ادا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

چنانچہ جو مہمان ان ہوٹلوں میں چائے پیتے ہیں وہ اکثر اپنے ”رسک“ پر پیتے ہیں بلکہ جن کانفرنسوں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے منتظمین کی طرف سے جو ” ہدایت نامہ “ جاری کیا جاتا ہے اس میں ایک ہدایت یہ بھی ہوتی کہ لانڈری اور استری وغیرہ کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے ۔ چنانچہ جو سمجھ دار مہمان ہیں وہ ہوٹل میں ” استری“ اپنے ساتھ لاتے ہیں۔
” جس طرح ہر کام کے پس پردہ کوئی وجہ ہوتی ہے، اس طرح یہ کالم لکھنے کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم ان فائیوسٹار ہوٹلوں کے بہت زخم خوردہ ہیں اور وہ یوں کہ کبھی کبھار اگر” مفتا“ نہ لگے و وضع داری قائم رکھنے کے لیے اس ”قماش“ کے ہوٹلوں میں اپنے خرچ پر بھی ٹھہرنا پڑ جاتا ہے ۔بصورت دیگر احباب پر سفید پوشی کا بھرم کھل جاتا ہے گزشتہ دنوں ہم نے ایک اسی قسم کے ہوٹل میں قیام کے دوران ناشتہ منگوایا اور ناشتے کے بعد بل کا مطالعہ شروع کیا تو اس میں انڈے کے چودہ روپے لگائے گئے تھے ہم نے ویٹر سے پوچھا کہ بھائی اس انڈے کے سلسلے میں منیجر صاحب کو خود بھی کوئی زحمت اٹھانا پڑتی ہے جو ہم پر غصہ اتارنے کے لیے اتنے پیسے چارج کئے ہیں، مگر ہو بچارا جواب میں مسکرا کر خاموش ہو گیا۔

اسی طرح ایک دفعہ غلطی سے ہم نے ” شلوار کرتہ“ دھونے کے لیے دے دیا ، شام کو دیا صبح دس بجے چاہیے تھا لانڈری بوائے نے کہا جناب ارجنٹ پر دھلے گا ہم نے بے نیازی سے کہا پھر کیا ہوا؟۔ مگر پھر ہوا یہ کہ اس شلوار کرتے کی دھلائی کے ہمیں پچپن روپے ادا کرنا پڑے۔ جب کہ یہ سوٹ ہم نے سیل سے قریباََ اتنے ہی پیسوں میں خریدا تھا اور اس وقت اس کی ری سیل ویلیو تیس روپے سے زیادہ نہیں تھی۔

” ان فائیو سٹار ہوٹلوں کے خلاف ہمارے غصے کی ایک وجہ بلکہ ب نیادی وجہ جو ہم نے ابھی تک نہیں بتائی تھی یہ ہے کہ ہم سفید پوشوں کی انا کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ان میں سے ہر ہوٹل نے بجلی کی وائرنگ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور میوزک سسٹم، فلش سسٹم اور اس طرح کے جتنے بھی دوسرے سسٹم ہیں دوسرے ہوٹلوں سے مختلف رکھے ہوئے ہیںاور ان میں کچھ اتنی راز داری پائی جاتی ہے۔
کہ اگر تلاش بسیار کے بعد ٹیبل لیمپ جلانے کا سوئچ مل گیا ہے تو باقی روم کی لائن آن کرنے کے سسٹم کا سراغ نہیں مل رہا۔ اسی طرح اگر میوزک آن کرنے کی ” ٹیکنالوجی“ تک رسائی ہو گئی ہے تو فلش سسٹم کا پتہ نہیں چل رہا۔غرضیکہ ہر فائیو سٹار ہوٹل میںایک نہ ایک ”گھنڈی“ ایسی رکھ دی جاتی ہے کہ ہر دفعہ جھجھکتے جھجھکتے ہوٹل کے ملازم کو بلانا پڑتا ہے اور اسے اعتماد میں لے کر پوچھنا پڑتا ہے کہ بھائی بتی کس طرح جلائی جاتی ہے۔
اور فلش کس طرح چلایا جاتا ہے اور اس کے جواب میں وہ موذی آپ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ” پتہ نئیں کتھو آجاندے نیں!“ بس یہی ان ہوٹلوں کا ” بزنس سیکرٹ“ بھی ہے کہ گاہل کااحساس کمتری میںمبتلا کرو اور اس کی آنکھیں اتنی چکا چوند کر دو کہ وہ ہر دفعہ یہ

جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھاہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

والا شعر پڑھتے ہوئے ہوٹل سے رخصت ہوا اور اس طرح رخصت ہوا جس طرح سکند ر دنیا سے رخصت ہوا تھا!۔

” تاہم واضح رہے کہ ہم نے ابھی تک ان ہوٹلوں کا صرف تاریک رخ دکھایا ہے۔ روشن رخ تو دکھایا ہی نہیں اور ان ہوٹلوں کا رخ”روشن“ تو ایسا ہے کہ پر وانوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ شمع کی طرف جائیں یا اس رخ روش کا طواف کریں مثلاََ ایک مثبت پہلو ان ہوٹلوں کا یہ ہے کہ جو کاروباری سودے لاکھوں میں طے ہونے ہوتے ہیں وہ ان ہوٹلوں کے ذریعے کروڑوں میں طے ہو سکتے ہیں۔
ان ہوٹلوں میں اٹھنے ،بیٹھنے اور لیٹنے والا شخص اس قدر معزز سمجھا جاتا ہے کہ اس کا کالا دھن بھی سفید ہو جاتا ہے بلکہ بیشتر صورتوں میںتو خون سفید ہو جاتا ہے۔ دوسروں کو چھوڑیں انسان اپنے طور پر خود کو اتنا معزز سمجھنے لگتا ہے کہ اسے دوسرا کوئی شخص معزز ہی نہیں لگتا اور یوں ان پر ہوٹلوں کے ذریعے معاشرے میںعزت کا جو ” خود تشخیصی نظام“ نافذ ہوا ہے۔
اس کے نتیجے میں ساری قدروں پر از سر نو نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے تاہم ان معاشی اور معاشرتی حوالوں کے علاوہ ان فائیو سٹار ہوٹلوں کی ایک قومی خدمت بھی ہے۔ جسے کم از کم ہم پاکستانی فراموش نہیں کر سکتے، سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر جب عام پاکستانی بکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں گاجروں مولیوں کی طرح کٹ رہے تھے ہمارے بڑے بڑے افسروں اور معززین نے ڈھاکہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہی پناہ لی تھی۔!

Browse More Urdu Mazameen