Hay - Article No. 2107

Hay

ح - تحریر نمبر 2107

حلوے میں ہم نے بہت ترقی کی ہے، گاجر کا حلوہ، انڈے کا حلوہ، سوہن حلوہ، ویسے تو بعض بیگمیں پلاوٴ کا بھی حلوہ بنا دیتی ہیں لیکن میری بیگم ایسا نہیں کرتی کیونکہ وہ مجھ سے پکواتی ہے

Suhail Abbas Khan سہیل عباس خان جمعہ 7 جولائی 2017

پیارے بچو!! جی! شابش شابش !! ”ح“ سے صرف حلوہ ہوتا ہے۔ اسے مزے دار بنانا ہو تو اس میں مانڈے ملا دیتے ہیں یعنی ہم کو اپنے حلوے مانڈے سے کام۔ حلوے میں ہم نے بہت ترقی کی ہے، گاجر کا حلوہ، انڈے کا حلوہ، سوہن حلوہ، ویسے تو بعض بیگمیں پلاوٴ کا بھی حلوہ بنا دیتی ہیں لیکن میری بیگم ایسا نہیں کرتی کیونکہ وہ مجھ سے پکواتی ہے۔ ہم نے صرف دو چیزوں میں ترقی کی ہے ایک حلوے میں اور دوسری ایٹم بم میں۔
وہ دن دور نہیں جب گوجرانوالہ میں ایٹم بم کو ٹول لگ رہا ہوگا۔ پرانے قاعدے میں ”ح“ سے حوض تھا، ہم نے تو اپنی پوری زندگی میں نہ دیکھا نہ سنا۔ بس ایک حوض کوثر سنا تھا، وہاں بھی مولوی کی اجارہ داری ہے، جسے چاہے جانے دے جسے چاہے نہ جانے دے۔ ”ح“ سے حوصلہ بھی ہوتا ہے لیکن اوباش لوگ اسے غلط معنی میں استعمال کرتے ہیں کہ فلاں کا حوصلہ بلند ہے۔

(جاری ہے)

بھلا ماں بہنوں کے لیے کوئی ایسی زبان استعمال کرتا ہے۔ ”ح“ سے حرکت بھی ہوتی ہے، سنا ہے اس میں برکت ہوتی ہے، ہوتی ہو گی لیکن ہم نے تو کبھی نہیں دیکھی، ہم نے تو جو بھی حرکات کیں لوگوں نے کہا کہ یہ کیا حرکت ہے بلکہ اسے حرکات و سکنات کہا۔ اب یہ سکنات پتا نہیں کہاں سے آ گیا۔ ”ح“ سے حبس ہوتا ہے جس میں لوگ لُو کی دعا مانگتے ہیں۔ ویسے تو ”ح“ سے حکومت بھی ہوتی ہے جس میں جی حضوری کی جاتی ہے۔
پہلے یہ حاکم علی زرداری کے بیٹے کی ہوتی تھی، سنا ہے اب بھی وہ اس میں دخیل ہے اس لیے اسے سڑکوں پہ گھسیٹنے والے اس سے معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں۔ ”ح“ سے حافظ بھی ہوتا ہے، اس کا بھی سوہن حلوہ ہوتا ہے، پہلے خدا حافظ ہوتا تھا پھر جب ہماری قوم سمجھ دار ہو گئی تو اللہ حافظ ہو گیا، اب اس قوم کا بھی اللہ ہی حافظ ہے، جس کا کوئی حافظہ نہیں ہے۔
ہر بار اسی نشان پہ ٹھپہ لگاتے ہیں جس نے دھوکا دیا ہوتا ہے۔ ”ح“ سے حساب بھی ہوتا ہے بلکہ اسے حساب کتاب کہنا چاہیے یہ صرف دو صورتوں میں ہوتا ہے، ایک اسحاق ڈار اور دوسری منکر نکیر کی صورت میں، اور دونوں صورتوں میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں ”ح“ وہ لفظ ہے جس پہ کوئی نقطہ نہیں ہوتا، بھلا بے وقوفوں کو کوئی بتائے اگر ہوتا بھی تو ہمیں کیا فرق پڑنا تھا، ہم سیکھنے کے لیے تھوڑی پڑھتے ہیں، ہم تو ڈگری لینے کے لیے ایسا کرتے ہیں تاکہ اسمبلی کا ممبر بن سکیں، اور ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی۔ پیارے بچو جاوٴ اور اگر حلوہ بن گیا ہو تو ماسٹر صاحب کے لیے لاوٴ۔

Browse More Urdu Mazameen