Hum Bore Karte Hain - Article No. 2023

Hum Bore Karte Hain

ہم بور کرتے ہیں - تحریر نمبر 2023

”جناب ہمارے والد صاحب بھی مشہور بور کرنے والے تھے۔بلکہ ہمارے دادا تو اس پورے علاقے میں اکیلے بور کرنے والے تھے“ ”آپ کو برا نہیں لگتا جب لوگ آپ کو بور کرنے والا کہتی۔“؟ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

منگل 29 ستمبر 2015

”ہم بہت اچھا بور کرتے ہیں۔“
”کیا؟“ ہم نے حیرت سے کہا
”جی ہم بور کرتے ہیں۔“
”ہم دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ ہم سے اچھا کوئی اور بور نہیں کر سکتا۔“
”آپ یہ دعوٰی کیسے کر سکتے ہیں!؟ ہم ابھی تک حیرت زدہ تھے۔
”دعوٰی؟۔“
”اجی ہم خاندانی بور کرنے والے ہیں“
”کمال ہے کہ آپ خود ایسا کہ رہیں ہیں۔
کیا لوگ بھی ایسے ہی کہتے ہیں؟“ ہم نے پوچھا
”لوگ؟ حضور پورا علاقہ یہ کہتا ہے کے ہم سے اچھا کوئی بور نہیں کرتا“
”حیرت ہے“ ہم ابھی تک حیرت میں تھے۔
”جناب ہمارے والد صاحب بھی مشہور بور کرنے والے تھے۔بلکہ ہمارے دادا تو اس پورے علاقے میں اکیلے بور کرنے والے تھے“
”آپ کو برا نہیں لگتا جب لوگ آپ کو بور کرنے والا کہتی۔

(جاری ہے)

“؟ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”برا کیوں لگنا یہ تو ہمارا فخر ہے؟“
”دیکھیں میں نے آج تک بور سے بور شخص کو یہ تسلیم کرتے نہیں سنا کے وہ بور کرتا ہے۔ آپ کتنی تسلی،آرام اور فخر سے کہ رہے ہیں؟“
” حضور جو ہم سے ایک دفعہ بور کرواے پھر وہ ہمیشہ کے لئے ہمارا گاہک بن جاتا ہے۔“
”گاہک؟ میں سمجھا نہیں؟“ ہماری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا
”جناب ہم پانی کی موٹروں اور نلکوں کا زمین کے اندر بور کرتے ہیں پانی نکالنے کا پائپ ڈالنے کے لئے“۔

”اُف۔ توآپ پہلے بتا دیتے میں اتنی دیر سے بور ہو رہا۔“ ہم نے ایسے لمبا سانس چھوڑا جیسے پنکچر ٹائر سے ہوا نکلتی ہے۔
دنیا کا بور سے بور شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ بور نہیں کرتا بلکہ لوگ اس کی باتوں اورکمپنی سے محظوظ ہوتے ہیں۔انتہائی بور شخص بھی خود کو بور کہلانا پسند نہیں کرتا۔نہ کوئی ادیب شاعر واعظ ایسا سمجھتا ہے۔ جیسے اگرچہ آپ یہ تحریر پڑھ کر یقینا بور ہو رہے ہونگے مگر ہم اپنے تیئں یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ ایک انتہائی دلچسپ تحریر مطالعہ فرما رہے ہیں۔

ویسے بور ہونا یا کرنا ہے کیا؟ شائد جب دوسرے لوگ آپ کی گفتگو یا صحبت (ویسے ہمیں صحبت کے ایک عام فہم مفہوم کی بنا پر کمپنی کہنا زیادہ اچھا لگتا ہے) میں اکتاہٹ محسوس کریں۔
کچھ ادیبوں نے بور کی تشریح ایسے بھی کی ہے۔
”وہ صرف اس وقت منہ کھولتا ہے جب جمائی لینی ہو۔“
”وہ اس قدر بور ہے کہ تیسری عالمی جنگ میں بھی کوئی اس کی خندق میں پناہ لینا پسند نہ کری“
”بور شخص آپ کوکمپنی دےئے بغیرپرائیویسی سے محروم کر دیتا ہے (ذاتی طور پہ ہمیں یہ زیادہ وزن والی توجیح لگتی ہے)“
ایک آسان حل یہ ہے کہ اگر آپ کسی سے بور ہو رہے ہیں تو وہاں سے اٹھ جائیں۔
مگر اس میں بہت سے امر مانع ہیں جیسے
بور کرنے والے کی بور گفتگوختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی کہ آپ اٹھنے کی اجازت لے سکیں۔ ایسے احباب کو صرف سامع چاہئیں خواہ وہ ”ہوں ہا ں “بھی نہ کرے صرف موجود ہو۔ ایک بیوی نے عدالت میں طلاق کا دعویٰ کردیا کہ اس کے خاوند نے شادی کے پانچ سال سے اس سے بات نہیں کی۔ جج نے خاوند سے پوچھا کہ کیا ہے سچ ہے کہ اس نے پانچ سال سے بیوی سے بات نہیں کی؟ خاوند مسکین سی شکل بنا کر بولا ” میں نے دراصل بیگم صاحبہ کی قطع کلامی نہیں کی۔

بور ہونے کی ایک اور یہ وجہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص آپکے آفس یا گھر ملنے آ جاتا ہے اور آپ کو ضروری کام ہیں مگر وہ صاحب آپ کے قیمتی وقت کی پرواہ کئے بغیر اپنی ہانکے چلے جاتے ہیں۔ آپ جلدی سے ان کو چائے وغیرہ بھی پلا دیتے ہیں کہ وہ اب جائیں مگران کو کوئی جلدی نہیں ہوتی۔ آپ مروت سے یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ تشریف لے جائیں۔اگر آپ اشارہ کر بھی دیں کہ آپ مصروف ہیں تو وہ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔
قبلہ جنت مکین والدِگرامی بہت مہمان نواز تھے۔اکیلے کھانا کھانا اُن کے لئے محال ہوتا۔ کوئی مہمان نہ آتا تو کسی راہ چلتے کو پکڑ لاتے۔ خوب تواضح کرتے مگر جب اُکتا جاتے تو اچانک مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا کر مہمان کو کہتے
”اچھا چوہدری صاحب۔ خدا حافظ“
مہمان ہکا بکا اور شرمندہ سا ہو کے مصافحہ کر کے چلا جاتا۔ ہم نے اکثر ایسا کرنا چاہا مگر خود میں قبلہ والدِگرامی جیسی ہمت نہ پائی۔
کئی دفعہ بور مہمان سے اکتا کر بہانے سے قبلہ والدِگرامی کی اِس عادت کا تذکرہ بھی کیا کہ شائد مہمان اشارہ سمجھ کر رخصت لے لے مگر ہمیشہ ناکامی ہوئی اور مہمان کو ایک مزید مضوع مل گیا اگلے ایک گھنٹہ بات چیت کے لئے۔
ایک تیسری قسم ریٹائرڈ لوگوں کی ہے جو ہر روز صبح تیار ہے ہو کرکسی جاننے یا اپنے سابق آفس جا پہنچتے ہیں۔وہاں لوگ مصروف مگر یہ صاحب تو دن گذارنے آئے ہوتے۔
میزبان مصروفیت میٹینگ وغیرہ کا بہانہ کرتے مگر یہ صاحب اتنے ٹھیٹ کہ مصروفیت اور میٹینگ کی تفصیلات کو جاننے اور اُس میں اپنی بلا معاوضہ مدد کی پیش کش کر دیتے ہیں اور ساتھ فرماتے ہیں
” کوئی بات نہیں آپ کو ڈسٹرب نہیں کریں گے، ہم انتظار کر لیں گے آپ میٹنگ سے ہو آئیں، پھر تسلی سے گپ شپ لگاتے ہیں“
پھر وہ سارا دن ہر ملاقاتی کے ساتھ پھر سے چائے پیتے ہیں اور آپ کی ہر بات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔

ایک چوتھی قسم ایسے بزرگوں کی ہے جنہیں اپنے زمانے کی ہر چیز موجودہ سے بہت بہتر لگتی ہے اور نوجوانوں کو اِسی کے لئے قائل کرنے کے بے سود کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ نئی نسل کے لئے اُن باتوں میں کم ہی دلچسپی ہو تی ہے اور ایسی گفتگو سوائے بوریت کے کچھ نہیں ہوتی۔ کم ہی بزرگ اتنے سیانے ہوتے ہیں جو نئی نسل ساتھ ایسی باتیں کر سکتے ہیں جو اُن کی دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔
زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ عمر کی وجہ سے وہ سیانے ہو گئے ہیں۔ حالانکہ سیانے عمر کے ساتھ مزید سیانے اور بے وقوف ڈھلتی عمر ساتھ مزید چِڑچڑے اور سنکی ہوتے جاتے ہیں۔ اُن کی موجودگی اور باتیں سیوائے بوریت کے کچھ نہیں ہوتیں۔
بور لوگوں لی ایک قِسم شاعر لوگ ہیں جو بہانے سے اپنا تازہ کلام پہ کلام سنانے کو ترسے ہوتے ہیں اور اپنی شاعری کی خود ہی تعریفیں کر کے آپ کو شاعری سناتے اور زبردستی داد وصول کرتے ہیں۔
ایسے شعراء کو دیکھتے ہی لوگوں کو اچانک کوئی کام یاد آ جاتا ہے۔جھمرہ سے ہر روز ٹرین سے فیصل آباد آتے جاتے دوستوں کا ایک گروپ بن گیا۔خوب گپ شپ ہوتی اور وقت گزرنے کا احساس بھی نا ہوتا۔ ایک ریٹائرڈ سکول ماسٹر امین ساجد صاحب بھی زبردستی گروپ میں شامل ہوگئے اور اپنی شاعری سے بور کرتے رہتے۔ ساجد تخلص کرتے تھے اوربے ربط شاعری ہمیں بھگتنا پڑتی تھی ۔
ایک دن ہمارے دوست وکیل اشفاق کاہلوں کہنے لگے کہ مشہور ہے کہ
سو#دا کی شاعری واہ ہے
اور
میر# کی شاعری آہ ہے
میں ان میں ساجد صاحب کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ساجد صاحب بہت خوش ہوئے کہ اساتذہ میں ان کا شمار ہو رہا ہے کہنے لگے کہ فرمائیں ۔ کاہلوں صاحب بولے
سودا# کی شاعری واہ ہے
اور
میر# کی شاعری آہ ہے
تو
ساجد# کی شاعری سواہ (راکھ) ہے
پھر کہیں جا کر کے ساجد صاحب کی شاعری سے جان چھوٹی۔

صاحبو بور کرنے والی ایک اور قسم افسر یا باس کی ہوتی ہے۔ماتحت بیچارے خوش ہو ہو کر سنتے ہیں اورافسراپنی بور گفتگو جاری رکھتا ہے کہ شائدوہ بہت اعلی گفتگو فرما رہا ہے۔کہتے ہیں اگر لوگ آپ کی گفتگو شوق سے سن رہے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ آپ بہت خوش گفتار ہیں ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے باس ہوں۔
یہی کچھ یونیورسٹی کے میرے جیسے اساتذہ کا حال بھی ہے ۔
طالب علم بچارے مسکرا مسکرا کر ان کی بے ربط اور کسی logic سے محروم گفتگو جس میں ”میں‘’ میں“ کی تکرار ہوتی ہے۔ اس گمان میں سنائے جاتے ہیں کہ طالب علم ان کی گفتگو سے بہت محظوظ ہو رہے ہیں۔ سمسٹر سسٹم میں ٹیچر کی طاقت سے بور کرنے والی شائد ہی کوئی اور چیز ہو۔ یہ استاد بور کرتے ہیں بلکہ میں دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ بہت اچھا بور کرتے ہیں اور اُن کی CV میں بھی لکھا جا سکتا ہے۔

Browse More Urdu Mazameen