Lahori Nashtay - Article No. 2052

Lahori Nashtay

لاہوری ناشتے - تحریر نمبر 2052

لاہوی ناشتے میں حلوہ پوری کا وہی مقام ہے جوا ردو ادب میں ملاوجہی کی ” سب رس“ اور عبدالعزیز خالد کی شاعری کا ہے کیونکہ انہیں نوش جاں کرنے کے بعد آدمی کی طبیعت اتنی مکدر ہو جاتی ہے کہ

جمعرات 28 اپریل 2016

تنویر حسین:
لاہوی ناشتے میں حلوہ پوری کا وہی مقام ہے جوا ردو ادب میں ملاوجہی کی ” سب رس“ اور عبدالعزیز خالد کی شاعری کا ہے کیونکہ انہیں نوش جاں کرنے کے بعد آدمی کی طبیعت اتنی مکدرہوجاتی ہے کہ وہ مقدر کاسکندر ہوجاتاہے اس میں شک نہیں کہ حلوہ پوری کی شکل وصورت پشتو فلموں کے پوسٹرز سے بھی زیادہ پرکشش ہوتی ہے مگر اس کی سیرت پیٹ میں اتنی پیچیدگیاں اور اُلجھنیں پیداکردیتی ہے کہ آدمی کے منہ سے ” الحمداللہ“ کے الفاظ نہیں نکلتے بلکہ اس کی پاکٹوں سے انٹاکس اور کارمینا کی گولیاں نکلتی ہیں۔
بہر حال پوری کے تیار ہونے کا عمل ہماری حکومتوں کے تبدیل ہونے کے عمل کی طرح بڑا” تھرلنگ“ ہوتا ہے۔ مثلاََ ایک مرد کامل اپنی کمرکے گرد جہاندیدہ وسردوگرم چشیدہ چار گرسی دھوتی لپیٹتے میدے کے سفید سفید پیڑوں کے نرم ولطیف جذبات کو اپنے کالے ہاتھوں سے ” پھینٹی“ لگالگاکر ٹھیس پہنچارہاہوتاہے۔

(جاری ہے)

مرد کامل کے ہاتھوں کی کڑک اور دھمک اہل محلہ کو اتنا جذباتی بنا دیتی ہے کہ انہیں گھر سے نکلتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا پہنا ہوا ہے۔

مثلاََ کسی نے صرف پاجامہ پہن رکھا ہوتا ہے اورکسی نے صرف کرتا کوئی ٹریک سوٹ پہنے ” مسٹر پاکستان“ بنے چلاآرہا ہوتا ہے اور کوئی نیکراور بنیان میں اپنی ٹانگوں کا تعارف کرا رہاہوتا ہے۔
وہ اکنامکس کی بھی اتنی سوجھ بوجھ رکھتا ہے کہ وہ خریداروں کی جیبیں ڈھیلی کروانے کے لئے کبھی کندھے ہلا کر اور کبھی ٹھمکالگاکر پیڑے کوہوا میں یوں چھوڑدیتا ہے کہ قریب کھڑے لوگ محسوس کرتے ہیں جیسے یہ پوری انہیں کے رخساروں پر شرم حیاکی سرخی اور گرمی سے ہی پک کر تیار ہوگی تاہم یہ بڑی اونچائی سے گھومتی ہوئی کڑائی ہی جاگرتی ہے اور فوراََ اپنی اوقات سے باہر ہوتے ہوئے کسی بزنس مین کی طرح پھول جاتی ہے اور کسی جاگیر اور کی مانند سرخ ہوجاتی ہے۔
دکاندار کے آگے گاہکوں نے یوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں جیسے وہ دکاندار کے عقیقے پر” عقیقہ ٹویو“ کہنے کی تیاریاں کررہے ہوں۔ کچھ باادب بانصیب قسم کے لوگ جھولیاں اور تھیلے بھربھر کے حلوہ پوریاں لے جاتے ہیں اور کچھ بے ادب بے نصیب قسم کے لوگ ایک پوری دکاندار کے کف گیرے حلوے کے آٹو گراف ہی لیتے جاتے ہیں۔
لاہوری ناشتوں میں سری پائے، زبان اور کھد کا ناشتہ ایک ایساناشتہ ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی یاکمزور معدے کا شخص انہیں سونگھ بھی لے توشاید یہ اس کی زندگی کا پہلا اور آخری ناشتہ ہومگر لاہوریوں کی زندہ دلی اور وسیع القلمی اس حدتک قابل داد ہے کہ وہ نہ صرف گائے بیل بھینس اور بکریوں کا گوشت ذوق وشوق سے کھاتے ہیں بلکہ وہ ان جانوروں کے سپیئر پارٹس آنکھیں بند کر کے کھاجاتے ہیں خاص کرگائے کا گوشت اتنی رضاورغبت سے کھاتے ہیں کہ اس کی زبان تک نہیں چھوڑتے حتیٰ کہ اس” خمیرہ گاؤزبان“ بنالیتے ہیں۔
یہ سب بے زبان جانوروں کاکمال ہے کہ ہم نہ صرف عمردراز ہیں بلکہ زبان دراز بھی بہت واقع ہوئے ہیں۔ بس ہماری بدقسمتی یہ ہے ہم پاکستان کے معرض وجود میں آجانے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمار سرکاری زبا ن اور ہمارا سرکاری ناشتہ کیا ہوگا؟
لاہور کا ایک مقبول ومعروف ناشتہ” نان چنے“ ہے۔ لاہور کے چپے چپے پر نان چنوں کی ریڑھیاں اور دکانیں دیکھ کریوں لگتا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے گندم کی بجائے چنوں کی بدولت نکالا گیا تھا جس طرح قومی ترانہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہر کتاب کی پشت کامقدر بن چکا ہے۔
اس طرح” نان چنے“ بھی لاہوریوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ چنوں کے لیے یارلوگوں نے ” ہارس پاور“ کی اصطلاع گھڑرکھی ہے۔ وہ شاید اس لئے کہ لاہور کی سرزمین گھوڑوں کے معاملے میں بڑی زرخیز ہے۔ ویسے لاہوریوں اور گھوڑوں میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں کیونکہ دونوں چنوں کے سہارے اپنی زندگی کے تانگے ریڑھیاں کھینچ رہے ہیں۔ چنوں کے پتیلے کے ساتھ ہی ایک مرغیوں کا ڈربہ ساہوتاہے جس میں نانوں کو صبح دم ہی نظربند کردیاجاتا ہے۔
ریڑھی بان کے اعصاب پر ایک عددڈسٹر بھی ایسے ہی سوارہوتا ہے جیسے آج کل کے شعراء کرام، افسانہ نگاروں اور صورت گروں کے اعصاب پر عورت ، ریڑھی بان فاسق اپنے ڈسڑسے وہی کام لیتا ہے جو حکیم حاذق امرت دھارا سے پلیٹوں کے دھونے کے انتظام بھی بڑا آٹومیٹک ہوتا ہے۔ ایک سال خوردہ سی بالٹی پانی کے حمام تلے چمگادڑ کی طرح لٹک رہی ہوتی ہے۔ جس میں گاہک وضو کرنے کے بہانے ا س کے اندروالی تمام پلیٹوں کو خود بخود ہی صاف کرتے جاتے ہیں۔

لاہوری ناشتوں میں ایک ناشتہ ایسا بھی ہے جسے دیکھ کر چھڑوں کی قسمت پر رشک آنے لگتا ہے کیونکہ پراٹھے بھی پک رہے ہوتے ہیں اور ان کی آگ بھی جل رہی ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک شخص فٹ پاتھ پر چولہا اور توارکھے”تمہوڑی“ رنگ کے آلوؤں والے پراٹھے بنارہاہوتا ہے۔ اس کے پراٹھے کھا کر تو شایدنانی یادآتی ہوگی۔ بہرحال اسے دیکھ کریوں محسوس ہوتا ہے جیسے نیر سلطانہ کسی پنجابی فلم میں ماں کاکردارادا کررہی ہے۔
آلو ہمارے ہاں اتنی شیم پروف اور واٹر پروف قسم کی سبزی ہے کہ اس کا استحصال واحتساب کسی شکل اور کسی طرح بھی کرلیا جائے، اسے چنداں اعتراض نہیں۔ عموماََ آلوؤں والے پراٹھوں کاناشتہ ایک تو وہ لوگ کرتے ہیں جو سروں سے گنجے ہوں، نہ صرف گنجے بلکہ انہیں خدانے ناخن بھی عطاکیے ہوں، دوسرے وہ لوگ جوگاؤں سے سپیشل آلوؤں پر پی ایچ ڈی کرنے آئے ہوں اور تیسرے وہ لوگ جن کا تعلق ایک ایسی مستقل مزاج پارٹی سے ہے جو سالہاسال سے اپوزیشن میں چلی آرہی ہے۔

لاہوری ناشتوں میں ایک ناشتہ ڈبل روٹی، بند، جام اور مکھن کاناشتہ،ڈب روٹی تو دراصل ان کلرک بادشاہوں کاناشتہ ہے جنہیں حقیقت میں سنگل روٹی بھی میسر نہیں، پھر بھی کلرک بادشاہوں کی زندہ دلی دیکھے کہ وہ اکبرالہ آبادی کی نصیحت پر عمل پیرا، ہوکر چار دن کی زندگی کوکوفت نہیں سمجھتے بلکہ بی اے کرتے ہیں، ڈبل روٹی کھاتے ہیں اور پھر کرسی پر بیٹھ بیٹھ کر خوش اور گیس سے پھول جاتے ہیں۔
جہاں تک بند مکھن کے ناشتے کا تعلق ہے اس کی مقبولیت کی توانتہا نہیں۔ ہمارے ہاں ہر شخص مکھن لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یعنی ہر شخص صاحب اسلوب ہے کبھی مکھن صرف بی پی، میری گولڈ، راوی اور ڈوناوغیرہ کے بندوں کو لگایا جاتا تھا مگر اب یہ مکھن ان بندوں کو لگایاجاتا ہے جو ارباب بست وکشادہوں۔ وزیرہوں مشیرہوں یاافسران ہوں ، غرض ہمارے ہاں مکھن لگانے کا فن ارتکائی منازل طے کرتے کرتے” فنون لطیفہ“ ،میں شمار ہونے لگا ہے۔

Browse More Urdu Mazameen