Police Aavay Hi Aavay - Article No. 2095

Police Aavay Hi Aavay

پولیس آوے ہی آوے - تحریر نمبر 2095

مجھے لگتا ہے آصف زرداری کی طرح میں بھی ایک مضبوط اعصاب کا مالک ہوں … آپ کہیں گے یہ مثال تو میں نے اپنی اوقات سے بڑھ کر دے دی ہے، بندہ ”عام“ ہو تو خود کو ”خواص“ سے کیوں ملائے لیکن ایک بات اگر دل و دماغ میں سمائی ہو تو آپ اُسے نکال نہیں سکتے … بچے بڑوں کی نکل کرتے ہیں غریب امیر آدمی بن جانے کی خواہش رکھتا ہے …

حافظ مظفر محسن ہفتہ 15 اپریل 2017

مجھے لگتا ہے آصف زرداری کی طرح میں بھی ایک مضبوط اعصاب کا مالک ہوں … آپ کہیں گے یہ مثال تو میں نے اپنی اوقات سے بڑھ کر دے دی ہے، بندہ ”عام“ ہو تو خود کو ”خواص“ سے کیوں ملائے لیکن ایک بات اگر دل و دماغ میں سمائی ہو تو آپ اُسے نکال نہیں سکتے … بچے بڑوں کی نکل کرتے ہیں غریب امیر آدمی بن جانے کی خواہش رکھتا ہے … بھارت کے شہر بنگلور میں ایک حجام کے پاس سے بڑی بڑی گاڑیاں نکل آئیں، حال ہی میں اُس حجام نے جرمن سے ایک نئی مرسیڈیز کار منگوائی اُس کے ساتھ تصویر بھی بنوائی اور وہ تصویر عوام کی تفنن طبع کے لیے فیس بک پر بھی لگائی اور اخبارات میں بھی چھپوائی میں نہیں کہتا ”دھوکہ دہی” یا فراڈ کرنے کا حق صرف امیر آدمی کو حاصل ہے یا دو نمبری صرف بڑے شعبہ سے وابستہ افراد ہی کرنے کے مجاز ہیں … جو دو نمبر ہے اُسے دو نمبری کرنے کی آزادی ہے، بلوچستان میں ایک وزیر صاحب سے اربوں روپے برآمد ہوئے پھر بڑے سرکاری افسر کے گھر سے اربوں روپے نکل آئے اب ایک کانسٹیبل کے پاس اربوں روپے دیکھے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

میں لاہور کے ایک بڑے ادارے میں کسی کام سے گیا … تو سادہ سی شکل و صورت کا مالک شخص بھی مالک کے برابر والے کمرے میں اُس طمطراق سے بیٹھا ملا میں نے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ یہ شخص ہر وہ کام کرنے کا مجاز ہے جو مالک کرے گا … اِس شخص کا نام اللہ دین ہے اور مالک کے دستخط تک اللہ دین کو کرنے کا اختیار حاصل ہے مالک اگر نئے سال کی گاڑی خریدے گا تو اُسی ماڈل کی نئی گاڑی اللہ دین کے لیے بھی ”آرڈر“ ہو گئی … مالک اور اللہ دین اکٹھے بیٹھ کر ”گندے“ لطیفے بھی Exchange کرتے ہیں اور مالک کے گھر سے آیا کھانا بھی ایک ساتھ کھاتے ہیں اسے میں ”مساوات“ کہہ لوں؟! … میں نے کسی سے مشورہ کیا تو وہ ہنس دیا … میاں مالک کبھی کبھی اللہ دین کو ”کتے دا پتر“ بھی غصے میں کہہ دیتا ہے اور اللہ دین مالک کو کبھی کبھی سنجیدگی میں ”حرام زادہ“ کہہ کر پکارتا ہے؟! … میں نے پھر سے اپنے بیان ”مساوات“ والی بات پر غور کیا پھر سے مخمصے کا شکار ہو گیا تو وجہ کیا ہے؟ … اُس نے اپنا سر پکڑ لیا … اور اندیشہ تھا کہ کئی سال بعد شاید میرا سر درد کرنے لگ جائے … تو استاد کتب کریم نے محبت سے کہا … ”پیارے تم جانتے ہو اپنے … نامور سیاستدان جہانگیر ترین پر الزام ہے کہ اُس نے اپنی کچھ جائیدادا اپنے ڈرائیوریا کسی اور ملازم کے نام کروا رکھی ہے۔
جب ایسا ہو تو اختیارات تو لنے اور پھر دینے بھی پڑتے ہیں؟میں بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالک اور اللہ دین کے درمیان ”ہونے والی خاموش معاہدہ“ کی تہہ تک پہنچ چکا تھا اُن کی ”محبت“ کی وجہ باہمی مفادات تھے یا ”خوف“ کے باعث دونوں ایک دوسرے سے خوفزدہ تھے ورنہ ۔
آج ایسی ہی دھمکی آمیز خبریں اخبارات میں موجود ہیں، مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف بیان داغ دیا ہے اور ”احتجاج“ بھی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ورنہ آپ کے سامنے ہی ہے مولانا کی پچھلی سیاسی ”قلا بازیاں“ اور ن لیگ سے محبت …؟ ( پہلے میں پاکستانی سیاستدانوں سے متاثر تھا اب تو میں ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی متاثر ہوں کہ سب ایک سے ہیں )بڑے بڑے کاروباری اداروں کی لڑائیاں جھگڑے، بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے ”اندر خانہ“ معاہدے اور پھر منکر ہو جانا، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، کردار کشی کرنا، یہ سب عوام کو صرف ایک خبر کی صورت میں ہمیشہ ملتا اور عوام ایسی خبروں کو ”انجوائے“ کرتے اور پڑھ کر خوش ہوتے اور پھر اُس نے پُر امید ہوتے ہوئے کہ جلد ”بڑی خبر“ بھی آئے گی ”اچھی“ خبر بھی سننے کو ملے گی…؟! مگر یہ سب ایک محدود پیمانے پر ہوتا، ادھر بہت سے راز … راز ہی رہ جاتے اور عوام اس معاملہ میں شدید خواہش کے باوجود تشنہ رہتے …؟
لیکن اگر جیسا کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، بڑے چینلز کی لڑائیاں یا ”خوفناک“ اختلافات سامنے آ جائیں تو پھر کیا ہو گا؟ مثلاً ایک ایسا اینکر پچھلے دنوں نہایت گندی گفتگو ایک چینل پر بیٹھ کر کر رہا
تھا۔
میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ”گندی باتیں“ ہضم کیں اور تڑپا بھی … پینترے بدلنا تو اُس ”بد روح“ کا زمانے کو پتہ تھا اور لوگ اُس وقت تک اِسے ”بد روح کی بد کلامیاں“ سمجھ کر صرف اس سے ”مزہ“ لیتے تھے یا انجوائے کرتے تھے مگر جب ”بد روح“ نے اُس ادارے کے بارے میں نہایت غلیظ زبان استعمال کرنا شروع کی اور عجیب عجیب طرح کے ”ثبوت“ اپنی طرف سے پیش کیے تو عوام میں اکتاہٹ محسوس ہونے لگی … لیکن وہ عدالتی احکامات کے باوجود ضد پر اڑا رہا اپنے ”جھوٹے“ موقف پر کھڑا رہا۔

لوگ گھبرا کے اِدھر اُدھر چینل گھماتے مگر ہر گھر میں جیسا کہ ایک آدھ شرارتی بچہ ہوتا ہے جو چلتی بس میں کنڈیکٹر اور کیلے بیچنے والے کے درمیان ہونے والے فساد کو بھی انجوائے کرتا ہے، لوگ کیلے بیچنے والے کو گالیاں نکال کر چپ کرانا چاہیں تو ایسا ”گندا“ شخص یا بچہ کیلے بیچنے والے سے پوچھتا ہے … ”بھائی تیری ذات کیا ہے اور تیری برادری کون سی؟ (وہ پھر سے اُسی ”گند“ چینل پر گھر والوں کو لے آتا ہے اور وہ ”بد روح“ کی بے ہودہ گفتگو سننے پر مجبور) وہ بے چارہ کوئی سی بھی برادری یا ذات بتائے ”گند صاحب“ اُسے اکساتے ہیں … ہم نے تو تیری ذات برادری میں تیری شکل میں پہلا بے غیرت دیکھا ہے جو ”کیلوں کا تاجر“ ہو اور ایک کنڈیکٹر سے ڈر جائے … ہار مان لے …؟
اور بس پھر …؟! آپ سمجھتے ہیں ”پولیس“ آوے ہی آوے … ہمارے محلے میں بشیر دوکاندار کی ایک لاکھ بارہ ہزار کی کمیٹی نکل آئی … میں نے والد صاحب کو بتایا ”باؤ جی … بشیر دوکاندار کی ایک لاکھ بارہ ہزار کی کمیٹی نکل آئی ہے؟“
اچھا … لے پھر یاد رکھ … ”پولیس آوے ہی آوے “ …؟ باؤ جی نے پر عزم لہجے میں کہا … میں نے وضاحت چاہی تو محبت سے بولے … ”کم عقلا چپ کر وقت کا انتظار کر … ”پولیس آوے ہی آوے“ … (ویسے اب پولیس نئی وردی اور پرانے جذبے کے ساتھ آتی ہے … بھلا وردی بدلنے سے روح
بدلے گی) دو دن بعد بشیر دوکاندار نے نہایت اونچی آواز میں اپنی دوکان پر ریکارڈنگ شروع کر دی، محلے داروں نے احتجاج کیا، بات جھگڑنے سے لڑائی مار کٹائی تک چلی گئی … بشیر نے فائرنگ کر دی اور پولیس آ گئی … ایک لاکھ بارہ ہزار کی کمیٹی … ادھر اُدھر چلی گئی … صبر آ گیا … خاموشی چھا گئی گویا تمام معاملات اپنی اپنی جگہ پر آ گئے … زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہو گئی۔

Browse More Urdu Mazameen