Tarki Dhobiya Coprative Socity - Article No. 2153

Tarki Dhobiya Coprative Socity

ترقی دھوبیاں کو آپریٹیو سوسائٹی - تحریر نمبر 2153

لانڈری میں جانے کے بعد کپڑے پر کیا گزرتی ہے اپنے کپڑوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار!

جمعرات 28 دسمبر 2017

ابن ِ انشاء:
آپ نے لانڈری میں یا ڈرائی کلینر کے ہاں بہت بار کپڑے دیے ہوں گے لیکن یوں کہ رسید اور تہ کرکے جیب میں رکھ لی اگر کہیں اس کی پشت کے نوشہ پڑھ لیں تو یقین ہے کہ خود ہی غسل خانے میں چھوا چھو کیا کریں نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیے۔
۱۔اگر کپڑے کے چیتھرے اڑ جائیں تو لانڈری ذمے دار نہ ہوگی۔

۲۔اگر استری کرتے میں کوئلے سے کپڑے جل جائیں تو لانڈری پر ذمے داری نہ ہوگی۔
۳۔اگر کپڑے پر جابجا رنگ یا تار کول کے دھبے پڑجائیں تو لانڈری ذمے دار نہ ہوگی۔
۴۔اگر لانڈری کا کئی ملازم کسی صاحب کے کپڑے پہن کر بارات میں چلا جائے یا انہیں رہن رکھ دے یا بیچ کھائے تو کسی گاہک کو مواخذے کا حق نہ ہوگا۔

(جاری ہے)

دھوبی آخر دھوبی ہے منطقی نہیں ورنہ محض ایک فقرہ لکھنے سے کام چل جاتا کہ گاہکوں کے کپڑے لے کر واپس نہیں کیے جاتے،ہمارا ارادہ ایک زمانے سے تھا کہ دھوبیوں کے ان سامراجی اصولوں کے خلاف کپڑے دھلانے اور پہننے والوں کو منظم کرکے ایک تحریک چلائیں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ جس طرح اس نے زمینداروں اور جاگیر داروں کا ختم کردیا ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگادی اسی طرح لانڈریوں کے متعلق کوئی قانون بنادے جس سے کپڑے نہیں تو فی الحال کچھ حقوق ہی واپس مل جائیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ حقوق ابھی ہمارے ذمے قابل ادا ہیں جن کی وصولی کے لیے انہوں نے پہل کرکے لاہور میں ایک انجمن بھی بنالی ہے ترقی دھوبیاں کواپریٹو سوسائٹی ہمارے گلی کے کونے پر پانچ سال ادھر میاں تاج محمد دھوبی کی کوٹھڑی تھی ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ دیوار پر سفیدی کراکے لکھ رکھا ہے دہلی دربارہ واشنگ فیکٹری اب وہی کوٹھڑی اب ٹو ڈیٹ امپیریل ڈرائی کلینرز کے نام سے موسوم ہے اورایک طرف شیشے کے کیس کے اندر ایک مشین بھی دھری رہتی ہے جو نہ جانے کپڑے دھونے کی ہے یا آئس کریم بنانے کی بہر حال اسے چلتے کسی ن نہیں دیکھا میاں تاج محمد کپڑے اب بھی گاندھی گارڈن کے گھاٹ پر ٹھنڈے پانی سے ڈرائی کلین کرتے ہیں البتہ ہمارا معیار زندگی انہوں نے بڑھادیا جس کپڑے کی دھلائی پہلے دو آنے دیتے تھے اب چار آنے دینی پڑتی ہے کلف لگانے کے دو آنے مزید اور استری کرائی کے بھی وہ دوسرو ں سے الگ لیتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ رعایت کرتے ہیں ایک نئی بات یہ ہے کہ گاہکوں کو رسید بھی دیتے ہیں اور اسی کی پشت سے ہم نے اوپر کی شرائط نقل کی ہیں۔
لانڈری میں جانے کے بعد کپڑے پر کیا گزرتی ہے اب تک یہ ایک راز سربستہ تھا لیکن ایک مغربی مصنف نے برسوں کی ریسرچ کے بعد کھوج لگا ہی لیا ہے اس کا بیان ہے کہ کپڑا سب سے پہلے کلانے کے شعبے میں جاتا ہے جہاں اسے گندھک کے تیزاب میں ڈبویا جاتا ہے دوسری مشین اس پر گوبر تارکول اور مختلف رنگوں کے چھینٹے دیتی ہے اس کے بعد کپڑا مشین گن روم میں جاتا ہے جہاں چھید ڈالنے کے لیے گولیوں کو باڑھ ماری جاتی ہے اس کے بعد آرا مشین کا نمبر آتا ہے جس میں پھوسڑے اڑائے جاتے ہیں اس کے بعد ایک ماہر فن کپڑ کے بٹن نوچتا ہے چونکہ یہ ہاتھ کا کام ہے اور محنت چاہتا ہے لہٰذا دھلائی کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں ہمیں معلوم نہیں ہمارے ہاں یہ مشینی رائج ہیں یا نہیں اگرچہ ہمارے دھوبی ان کے بغیر بھی اپنے آزمودہ اور خاندانی نسخوں کی بہ دولت یکساں تسلی بخش نتائج پیدا کرلیتے ہیں لیکن مشینوں سے کام جلدی اور آسان ہوجاتا ہے ولایت کی لانڈریوں میں تو دوسری بار کپڑا لانڈری میں جائے تو اس میں بارود بھر کر اڑا دیتے ہیں اور Damaged کا لیبل لگا کر واپس کردیتے ہیں ہم ابھی پسماندہ ہیں لیکن امید کرتے ہیں ترقی دھوبیاں کواپریٹو سوسائٹی کی بہ دولت یہ پسماندگی بھی جلد دور ہوجائے گی۔

”اپنے کپڑوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار۔

Browse More Urdu Mazameen