Vc Ya Vcr - Article No. 2193

Vc Ya Vcr

”وی سی“یا”وی سی آر؟“ - تحریر نمبر 2193

حکومت یونیورسٹیوں کے بحران پر قابو پانے کا ارادہ رکھتی ہے تو دل بہت خوش ہوا کہ چلو وائس چانسلر اورپروفیسر حضرات اب اپ گریڈ ہوکر کم از کم کلرک اور ہیڈ کلرک اتنی عزت تو حاصل کرہی سکیں گے

عطاالحق قاسمی ہفتہ 3 مارچ 2018

گزشتہ روز اخبار پڑھی کہ حکومت یونیورسٹیوں کے بحران پر قابو پانے کا ارادہ رکھتی ہے تو دل بہت خوش ہوا کہ چلو وائس چانسلر اورپروفیسر حضرات اب اپ گریڈ ہوکر کم از کم کلرک اور ہیڈ کلرک اتنی عزت تو حاصل کرہی سکیں گے کیونکہ یونیورسٹیوں کی موجودہ صورت حال میں طالب عملوں کے ہاتھوں ان کی جو درگت بنتی ہے بلکہ جو حیثیت متعین ہوتی ہے وہ قاصد اور نائب قاصد سے زیادہ نہیں لگتا ہے میں کچھ مبالغے سے کام لے گیا ہوں کیونکہ قاصد اور نائب قاصد کو بہر حال غسل خانے میں بند نہیں کیا جاتا اورنہ ان پر پتھراﺅ کیا جاتا ہے یہ سنگساری تو وائس چانسلروں اور یونیورسٹیوں کے سینئر پروفیسروں ہی کا مقدر بنتی ہے تاہم جب میں نے متذکرہ خبر کا غور سے مطالعہ کیا تو میری ساری مسرت کا فور ہوگئی ہے کیونکہ یونیورسٹیوں کے جس بحران پر قابو پانے کا عزم کا اظہار کیا گیا تھا وہ صرف مالی بحران تھا اس میں اساتذہ اور وائس چانسلروں کی حرمت بحال کرنے کا کوئی وعدہ شامل نہیں تھا،
یہ کالم لکھنے سے میرا مقصود یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز پر ووائس چانسلرز اور پروفیسرز کی بنی ہوئی ٹور کو ختم کرنا نہیں جوعام لوگوں کے ذہنوں میں قائم ہے عام لوگ تو یونیورسٹی کا نووکیشن کی محض تصویریں ہی اخباروں میں دیکھتے ہیں جن میں وائس چانسلرز حضرات دستارو فضیلت سر پر رکھے گاﺅن پہنے پروفیسر حضرات کا جلوس لیڈ کرتے نہایت باوقار انداز میں اسٹیج کی طرف جاتے نظر آتے ہیں نہایت مدبرانہ انداز میں عینک ایک خاص زاوئیے پر رکھ کر خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام نے انہیں کتنا بڑا مرتبہ اور کس قدر عزت وقار بخشتا ہے مگر حقیقت حال سے تویہ بچارے وائس چانسلر حضرات ہی واقف ہوتے ہیں کیونکہ ان دنوں طالب علموں نے وی سی کو وی سی آر بنادیا ہے اس میں طالب علم جو کیسٹ ڈالتے ہیں صرف وہی چلتی ہے یہ وی سی صاحبان اگر تھوڑی سی مزاحمت کبھی کریں تو انہیں غسل خانے میں بند کردیا جاتا ہے اور سنگ باری کرکے اس کے دفتر کے شیشے توڑ دئیے جاتے ہیں بلکہ کئی دفعہ اس مفروضے کے تحت یہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو فیصلہ طالب علم رہنما فرماچکے ہیںکہیں وائس چانسلر یا ان کی بنائی ہوئی کمیٹی اس کے خلاف فیصلہ صادر نہ کردے ممکن ہے کسی زمانے میں طالب علموں کی کوئی نظریاتی تنظیم اساتذہ کے ادب آداب کا خیال رکھتی ہو یا انصاف کے راست میں رکاوٹ نہ بنتی ہو لیکن اب تو بساط مکمل طور پر الٹی جاچکی ہے اور کسی ملکی قانون تو کیا کسی دینی یا اخلاقی اصول کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی اوریوں جو لوگ اس قسم کی نظریاتی تنظیموں سے حسن ظن رکھتے تھے مشکل وقت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے تھے وہ سخت ڈس الوژن ہیں اور سوچتے ہیں کہ ایک طویل عرصے کی نظریاتی تربیت رت جگے اور پورے معاشرے کو حضور کے اسوہ حسنہ میں ڈھالنے کے خواب اگر ایک ذرا سی مصلحت کے سامنے دم توڑ دیتے ہیں تو کوئی بڑی مصلحت درپیش ہونے کی صورت میں صورت حال کیا ہوتی ہوگی؟
مجھے لگتا ہے کہ بات کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگئی ہے حالانکہ کالم نگار اگر سنجیدہ ہوجائے تو وہ کچھ مخولیا سا لگنے لگتا ہے لہٰذا مجھے اپنے اس دوست کی بات پر کان دھرنا چاہیے جو میرے پاس بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے کہ تم خواہ مخواہ بے چارے طالب علموں کے لتے لے رہے ہو طالب علم آخر طالب علم ہیں تم ان سے اتنی بلوغت کی توقع رکھتے ہو بات کرنی ہے تو طالب علم تنظیموں کے مربیوں سے کرو کہ وہ اپنے اپنے بچوں کو سمجھائین کہ جو کچھ یہ کرتے ہیں وہ ان کے بڑوں کے کھاتے میں جاتا ہے اور صحیح طور پر جاتا ہے دوسری بات میرے دوست نے یہ کہی ہے کہ حکومت سے یونیورسٹیوں کی مرمت کرنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے براہ راست یہ اپیلی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں سے کرو کو وہ اپنی اور یونیورسٹیوں کی عزت بحال کریں اور ان کی خودی پیدا کرنے کے لیے انہیں ٹیپو سلطان کا قول بھی یاد دلاﺅ تاہم مجھے اپنے دوست کی دوسری بات سے اختلاف ہے کیونکہ یہ بے چارے اگر اس چکر میں پڑگئے تو ان کی نوکری چلی جائے گی اور پھر ان کی یہ نوکری کون بحال کرائے گا؟حبیب جالب نے کسی زمانے میں فیض احمد فیض کے بارے میں یہ شعر کہا تھا۔

(جاری ہے)


”جگانہ شہ کے مصاحب کو خواب سے ورنہ“
”اگر یہ جاگ اٹھا نوکری سے جائے گا“
جو ایک لحاظ سے ان شرفاءپر بھی صادق آتا ہے ایسا نہیں کہ حکومت انہیں خوشی سے نوکری سے نکالے گی بلکہ طلبہ کے مطالبے پر ایسے وی سی صاحبان کو جو طلبہ کا وی سی آر بننے سے انکارکریں گے بادل نخواستہ نوکری سے جواب دے دیا جائے گا کیونکہ اس صورت میں وہ حکومت کے لئے امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کا باعث بنیں گے لہٰذا یہ طائر ہوتی ساری عمر طلبہ تنظیموں کے سامنے رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اور یہ صورت حال پیشاور سے کراچی قائم و دائم ہے سو اگر ہمارے چوٹی کے سکالرز اورسینئر پروفیسر ہی خودی کو بلندی نہیں کرنا چاہتے اور خود کو اپنے خدا کی بجائے طلبہ کے سامنے ہی جواب دہ سمجھتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے حکومت یونیورسٹیوں کے مالی بحران پر قابو پائے اخلاق بحران سے کسی قوم کا کیا بگڑ تا ہے؟

Browse More Urdu Mazameen