Zaroorat Rishta - Article No. 2173

Zaroorat Rishta

ضرورت رشتہ - تحریر نمبر 2173

ضرورت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے خصوصاً ضرورت رشتہ کی اہمیت سے تو انکار نہیں یہی وجہ ہے کہ ہر شریف آدمی ضرورت نہ بھی ہو ضرورت رشتہ کا قائل ضرور ہوتا ہے

ہفتہ 27 جنوری 2018

عطاءالحق قاسمی
بلکہ بہت سے شرفاءتو اخبار کی ہیڈلائن بعد میں پڑھتے ہیں ضرورت رشتہ کے اشتہار پہلے ڈھونڈتے ہیں شاید اس لیے کہ ہیڈلائن میں رشتے توڑنے کی باتیں ہوتی ہے ایک بزرگوار کو ہم جانتے ہیں جو روزانہ اخبار سامنے پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں موٹے شیشوں والی عینک ناک پر جماتے ہیں اور بڑی دلجمعی کے ساتھ ان اشتہارات کا مطالعہ کرتے ہیں ہم نے ایک دن کہا بزرگو آپ یہ اشتہارات اتنی رغبت کے ساتھ کیوں پڑھتے ہیں؟بولے عزیزم آپ نے بہت احمقانہ سوال پوچھا ہے ہم نے عرض کیا وہ کیسے؟کہنے لگے آپ سیاستدان ہیں؟ہم نے کہا نہیں فرمایا پھر سیاسی خبریں کیوں پڑھتے ہیں؟ہم لاجواب ہوگئے پھر انہوں نے پوچھا آپ کھلاڑی ہیں؟ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے سوال دہرایا کہ پھر کھیلوں کی خبریں کیوں پڑھتے ہیں؟ان کی باتوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ اگرچہ وہ کھلاڑی نہیں لیکن انہیں کھیلوں سے دل چسپی ضرورہے دوسرے لفظوں میں انہیں رشتے کی ضرورت نہیں یا امید نہیں لیکن ضرورت رشتہ کے اشتہار پڑھنا ان کی اکیڈمک ضرورت ہے ہمیں خدشہ ہے کہ ایک دن وہ اس میں سے اکیڈمک والی بات سے کہیں انکار ہی نہ کردیں۔

(جاری ہے)

ضرورت رشتہ کے اشتہار صرف بعض بزرگوں ہی میں مقبول نہیں بلکہ ان اشتہار وں کا حلقہ مطالعہ بے روز گار نوجوانوں تک پھیلا ہوا ہے بلکہ ان دنوں تو بیشتر نوجوانوں اخباروں میں نوکریوں کے اشتہارات دیکھنے کے بجائے رشتوں کے اشتہارات دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں نوکری وزیر اعلیٰ نے اور مرکز وزیر اعظم نے دینا ہوتی ہے جس کے حصول کے لیے پاکستان کا شہری ہونا کافی نہیں حکمرانوں تک رسائی ضروری ہے اس کے بجائے جو والدین یا میرج بیورو والے شادی کے اشتہارات اخبار میں چھپواتے ہیں ان کی رسائی ڈاک کے ایک لفافے یا رجسٹریشن فیس کی ادائیگی سے ممکن ہوجاتی ہے اور بینگ پھٹکڑی لگے بغیر رنگ بھی چوکھا آتا ہے مثلاً بے روز گار نوجوانوں کے لیے آ ج ہی اخبار میں تین بہترین نوکریوں کے اشتہارات شائع ہوئے ہیں یہ ملاحظہ فرمالیں۔

”بزنس مین کی 23 سالہ خوبصورت کنواری دونوں کانوں میں پیدائشی نقص لڑکی کے نام کوٹھی لڑکے کو کاروبار کے لئے نقدوس لاکھ کی رقم شریف دیہاتی کنوارے رنڈوے دوسری شادی والے فوری لکھیں۔“کروڑ پتی زمیندار کی 25 سال بیٹی خاندانی ناچاقی کی وجہ سے رخصتی سے قبل طلاق لڑکی نام چھ مربعہ اراضی فیکٹری و کوٹھی لڑکے کو کاروبار کے لیے 20 لاکھ روپے دیں گے رشتہ عید سے قبل طے!فیکٹری اونر کی 27 سالہ بیٹی نظر معمولی کمزور لڑکی کے نام بنگلہ گاڑی لڑکے کو کاروبار کے لیے25 لاکھ روپے دیں گے۔
اب آپ بتائیں بے روز گار کنواروں رنڈوﺅں اور دوسری شادی کے مستحق افراد کے لیے بہترین ازدواجی زندگی نہ سہی بہترین خوشحال زندگی گزارنے کے اتنے سنہری مواقع دو ٹکیاں کی نوکری میں کہا دستیاب ہوسکتے ہیں اگرچہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ میرج بیورو والے سنہری خواب دیکھنے والوں کو یہ سبز باغ محض رجسٹریشن فیس کے نام پر لاکھوں روپے بٹورنے کے لیے دکھاتے ہیں آخر وہ بھی تو خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں ویسے جن اشتہاروں کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے وہ ضرورت رشتہ کے کم اور سرمایہ کاری کے اشتہارات زیادہ نظر آتے ہیں ایک پارٹی دس لاکھ روپیہ انویسٹ کرنے پرتیار ہیں دوسری پارٹی بیس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی پیش کش کررہی ہے اور تیسری پارٹی نے پچین لاکھ کی بولی لگادی ان سے کے ساتھ زمینیں اور فیکٹریاں علیحدہ ہیں گذشتہ دنوں ایک جاپانی صنعت کار نے پاکستان کے حالات کو سرمایہ کاری کے لیے غیر موزوں قرار دیا تھا اس نے غالباً یہ اشتہارات نہیں دیکھے تھے جن میں سرمایہ کاری کے لیے سر سے کوئی شرط ہی عائد نہیں کی گئی بلکہ رنڈوے دوسری شادی کے خواہشمند شہری دیہاتی سب کو ایک نظر سے دیکھا گیا ہے اسی طرح ان اشتہاروں سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ ایک دوشیزہ کی نظر کمزور ہے دوسری بہری ہے تیسری مطلقہ ہے تاہم جنہیں شادی کے لیے راغب کیا جارہا ہے ان کی کسی کمزوری کو درخواست دینے کے لیے نااہلی کئے زمرے میں نہیں رکھا گیا گویا درخواست وہند کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کی دو آنکھیں ہوں دو کان ہوں دو بازہوں دو ٹانگیں ہوں اور ایک ناک ہوبلکہ سچ ہوچھیں تو ہمیں لگتا ہے کہ درخواست و ہند کی ناک کا ہونا اس کے لیے ڈس کو الیفکیشن ہے یوں ضرورت رشتہ کے یہاشتہارات ہمیں ضرورت رشتہ کے اشتہارات نہیں بلکہ اس مہم کا حصہ لگتے ہیں جو قوم کو بے غیرت بنانے کے لیے چلائی جارہی ہے اور جس کے نتیجے مضبوط رشتے نہایت آسانی سے ٹوٹ رہے ہیں خدا جانے رشتوں کو جوڑنے والے ضرورت رشتہ کے اشتہارات کب شائع ہوں گے؟

Browse More Urdu Mazameen