Liyari Phir LahuLohan
لیاری پھر لہولہان
23 اموات کے بعد نقل مکانی شروع،گینگ وار کے کارندے علاقے میں فائرنگ یا بم حملوں اور راکٹ داغنے میں ملوث ہیں یہاں عزتیں محفوظ نہیں نہ مال رہ گئی جان تو اس کی واقعتاکوئی قیمت نہیں
بدھ 19 مارچ 2014
کراچی کا قدیمی علاقہ لیاری ان دنوں لہولہان ہے ایک ہی دن میں عورتوں، بچوں اور بزرگوں 23اموات ایساسانحہ ہیں جسے بھلایا نہیں جا سکتا، کراچی پریس کلب پر نعرہ زن خواتین ضعیف العمر اور کم سن بچے امن اور انصاف کی بھیک مانگ رہے تھے جو آج کل لیاری میں عنقا ہے
گینگ وار کے کارندے علاقے میں فائرنگ یا بم حملوں اور راکٹ داغنے میں ملوث ہیں یہاں عزتیں محفوظ نہیں نہ مال رہ گئی جان تو اس کی واقعتاکوئی قیمت نہیں چند عرسوں قبل تک لیاری کراچی کا ایسا گلدستہ تھا جہاں سندھی، پنجابی، بلوچ، مہاجر اور پٹھان امن و محبت کے ساتھ رہتے تھے مرزا آدم خان اور ڈیرئیرائیٹری کی چند گلیوں میں روہتک کے قصبے کوڑ پانی کے پٹھان آباد تھے ملحقہ آبادی میں نیازی آباد تھے جو میانوالی سے تلاش معاش میں یہاں آئے تھے اسی طرح پشتونوں ، بلوچوں اور سندھیوں ، کچھی سیمنوں کی بستیاں تھیں۔
(جاری ہے)
لیاری میں آتش و آہن کا کھیل کم و بیش پندرہ برس قبل شروع ہوا کراچی کی بنیادوں کو اپنا خون پسینہ دیکر اس شہر کی ترقی کی بنیاد رکھنے والے لیاری کے قدیمی باشندے مکران، مسقط، اور افریقی ممالک سے آئے تھے، کہتے ہیں کہ انگریزدور سے قبل بعض تاجر مسقط کے راستے افریقی غلام باشندوں کو گوادر فروخت کیلئے لاتے فروخت نہ ہونے والے کراچی لائے جاتے اور جو یہاں بھی فروخت نہ ہوئے انہیں یہیں چھوڑ دیا جاتا کہ واپسی کے اخراجات کون براشت کرے برٹش دور میں انسانی تجارت پر پابندی لگی ایک واقف حالی بتانے لگے کہ موسی لائن کے علاقے میں آج بھی بعض عمارتوں میں ایسے تہہ خانے موجود ہیں جہاں غلاموں کو زنجیروں سے جکڑ رکر رکھا جاتا تھا جبکہ پرانا گولی مار کر ایکسر کالونی کے بعض خاندان بھی زمبابوے کے ان خاندانوں سے رابطے میں ہیں جو انکے خیال میں ایک ہیں اسی طرح ماری پور روڈ پر آباد بعض خاندان آج بھی اپنے آپ کو لیاری کے بلوچوں سے الگ بتاتے ہیں اور اپنا رشتہ افریقی آبادی سے جوڑے ہیں لیاری کے یہ پر امن لوگ اس خونی جنگ کا حصہ کیسے بنے؟ کہتے ہیں کہ پچاس کے عشرے میں اٹکل بیکل نامی بھائیوں نے افشانی گلی سے منشیات فروشی کا دھندا شروع کیا ساتھ ہی چھوٹی موٹی بدمعاشی بھی اس کاروبار کیلئے ضروری تھی پھر کال ناگ، شیش ناگ، حاجی لعلو، داد محمد عرف دادل اور شیر محمد عرف شیرل سامنے آئے اسی فہرست میں ایک نام اقبال عرف بابو ڈکیت کا بھی ہے جس نے اسی دھندے کو نیارخ دیا اور پھر اقبال کے بعد حاجی لعلو اور اس کے بیٹے ارشد پپو نے لیاری پر گرفت مضبوط کی اس دوران بابو ڈکیت کے شاگرد عبدالرحمن بلوچ نے کام سنبھا لا اور اسے رحمن ڈکیت کے نام سے پکارا گیا۔ لیاری میں خونریزی ایک ٹرانسپورٹر ماما فیضو کے اغواء سے شروع ہوئی جسے کہا جا تا ہے کہ ارشد پپو کے ساتھیوں نے اغوا کے بعد قتل کردیا تھا اسی واقعہ کے بعد رحمن اور پپو کے گروہ مدمقابل آئے رحمن کو سی آئی ڈی کے مرحوم ایس ایس پی چوہدری اسلم نے ہلاک کیا تو عزیر جان بلوچ امن کمیٹی کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے اسی دوران ارشد پپو کو لیاری میں بہمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا جسکے بعد عزیز جان اور اس کے ساتھی بابا لاڈلہ کے گروپوں میں اختلافات سامنے آئے اور یوں عزیر جان کے دست راست ظفر بلوچ، جبار جھینگو، ثاقب باکسر، آصف نیازی سمیت درجنوں افراد نشانہ بنے۔ اب وہاں قیام امن کیلئے قومی عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو سرگرم عمل ہیں۔
ہفتہ گذشتہ میں بدھ کا دن لیاری کی تاریخ کا بدترین دن تھا جب سکول جانے والے بچے، خواتین اور راہگیر اندھی گولیوں کا نشانہ بنے اور دودرجن کے لگ بھگ افراد نشانہ بنے لیاری کراچی کا اہم علاقہ ہے اسی کے اطراف میں صرافہ بازار جوڑیا بازار، بلولٹن مارکیٹ، کھجور بازار، میریٹ روڈ، ڈینسو ہال، سٹی کورٹ کی چامری مارکیٹ، ٹرنگ بازار، پان منڈی سمیت درجنوں تجارتی علاقے اور مراکز موجود ہیں اس لئے بد امنی کا براہ راست نشانہ تاجر اور صنعت کار بنتے ہیں اگر قیام پاکستان کے بعد سے یہاں تعلیم، صحت آمدو رفت کی سہولتوں پر توجہ دی گئی ہوتی۔ تفریحی سرگرمیوں کو عروج ملتا اور باکسنگ، فٹ بال، سائیکلنگ سے وابستہ کھلاڑیوں کو سہولتیں، مراعات اور آگے بڑھنے کے مواقع دیئے جاتے لہولہان نہ ہوتا۔
آج لیاری کے باسی لہولہان علاقہ سے بڑی تعداد میں نقل مکانی کر رہے ہیں سینکڑوں افراد علاقہ چھوڑ چکے ہیں چند ماہ قبل لیاری کے کچھی بدین، ٹھٹھہ اور کراچی کے دیگر مقامات پر منتقل ہوئے تھے اب بلوچ بھی ایسا کرنے پر مجبور ہیں اس وقت لیاری میں نوالین، جھٹ پٹ مارکیٹ، بزنجو چوک، علی محمد محلہ اور چیل چوک ے علاقے زیادہ متاثر ہیں لیاری کے سینکڑوں خاندان حب، ساکران گڈانی مرندر، ملیر اور دیگر مقامات پر اپنے گھر چھوڑ کر جاچکے ہیں گذشتہ 9ماہ میں لیاری کے 258۔ افراد ہلاک ہوئے جبکہ پولیس اور رینجرزسے مقابلوں اور باہمی جھگڑوں میں لیاری گینگ وار کے 42کارندے بھی نشانہ بنے۔ 5ستمبر 2013سے جاری کراچی آپریشن میں پولیس نے لیاری میں 2سو سے زائد چھاپے مارے لیکن امن قائم نہ ہوسکا اور آج پھر لیاری سسکیوں اور آہوں سے گونج رہا ہے اور اشکوں کا کھیل رواں ہے کہ اس شہر سے امن کے پرندے کوچ کر چکے ہیں اب یہاں بموں کے دھماکے ہوتے ہیں اور راکٹ داغے جاتے ہیں ۔
Liyari Phir LahuLohan is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 March 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
کراچی کے مزید مضامین :
1965 کی جنگ میں پاکستان کی بحری افواج کا کردار
Pakistan Navy's Role in 1965 War
جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کو آرڈینیشن سینٹر ۔ میری ٹائم انفارمیشن کا مرکز
Joint Maritime Information Coordination Center
پی این ایس یرموک: پاک بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث
Pakistan Navy inducts PNS Yarmook
سندھ کارڈ کے غبارے سے ہوانکل گئی؟
Sindh card ke ghubare se hawa nikal gayi
میئر کراچی کی برطرفی کا مطالبہ
mayor Karachi ki bartarfi ka mutalba
ایلی کاٹ کون تھا؟
Allie kat kaon tha?
آئی جی پولیس کے مسئلے پر خمیازہ میگا سٹی بھگت رہا ہے
IG Police Ke Masleh Par Khamyaza Megacity Bhugat Raha Hai
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف سازش!
Wazir e Ala Murad Ali Shah K Khilaf Sazish
وزیر داخلہ کا کراچی مشن۔۔اتحاد کے لئے رابطے
Wazir e Dakhla ka Karachi Mission
کراچی کی سیاست بدل گئی
karachi ki siasat Badal Gaye
کراچی سیوریج کا نظام درہم برہم
Karachi Sewerage Ka Nizaam Darham Barhaam
کراچی کی تعمیرات حکومتی اور بلدیاتی ادارے
Karachi Ki Tameeraat
کراچی سے متعلقہ
پاکستان کے مزید مضامین
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
مقبرہ جانی خان
-
خاموش سلطنت، میانی صاحب قبرستان
-
جاوید منزل کی تاریخی اہمیت
-
کھابے ، گلگت بلتستان کے ۔۔۔
-
چنیوٹ کا تاج محل
-
میانوالی (پنجاب کا پختونخواہ)
-
علی چوہدری کی”ڈیجیٹل سلطنت“
-
پاک بحریہ: سات دہائیوں کی داستان
-
بلواکانومی کی ترقی کے لیے سمندر کے حوالے سے لاعلمی ختم کرنے کی ضرورت
-
جھوٹ کے نقصانات اور ہمارا معاشرہ
-
اسلام آباد میں کرونا وائرس کی حقیقی صورت حال