Waqt Khatam Hua, Ehtesab Aane Ko Hai

Waqt Khatam Hua, Ehtesab Aane Ko Hai

وقت ختم ہوا ، احتساب آنے کو ہے

ہارون الرشید نے مسلسل کہا کہ انسان غلطیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اسرار کی وجہ سے برباد ہوتا ہے

Ayesha Kamran عائشہ کامران بدھ 5 ستمبر 2018

کیا خوب ہارو ن الرشید نے مسلسل کہا کہ انسان غلطیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اسرار کی وجہ سے برباد ہوتا ہے ۔کچھ کہے ۔دل کی گہرائیوں سے ہوتے ہیں کہ آسمان پر ان کو شرفِ قبولیت اورزمین پر شدید پزیرائی ملتی ہے یہ تو اللہ کی اپنے بندوں سے محبت کا انداز ہے کہ گناہ گاروں کا ذکر بھی آسمانوں پر ہوتا ہے اسی لیے تو اللہ حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے کہ تم میرا ذکر رات کے اندھیروں میں کرو میں تیرا ذکر دن کے اجالوں میں پھیلا دوں گا۔
کبھی تومیں سوچتی ہوں کہ کیا خوبصورت انداز میں تہ در تہ کرپشن کے جال بُنے گئے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی یہ ظلم کہ کہانی اس طرح طشت از بام ہو کر بچے بچے کی ذبان پر رسوائی کا نعرہ بنے گی یعنی" گلی گلی میں شور ہے سارا ٹبر چور ہے" یہ تو اللہ کے اپنے فیصلے کہ بیرون ملک جسے انتہائی پر سکون سمجھا جاتا تھا وہاں اپنے ہی گھروں اور باہر گلی میں شاپنگ سٹور پر جانا کتنا مشکل ہو گیا کہ جونہی کوئی پاکستانی ملا تو توہین آمیز پھبتی کسی ! اگر چہ نہ دین نہ مذہب نہ انسانیت اسکی اجازت دیتی ہے مگر کیا کیجئے اللہ کا اپنا سزا و جزا کا نظام ہے کیا خوب کہا چوتھے خلیفہ نے کہ" ہر ہرعمل ایک بیج کی مانند ہے جس کا نتیجہ ہر صورت نکلتا ہے "اللہ جانے کس کو خبر تھی؟ کہ بار بار مسلسل منی لانڈرنگ کرنے کے باوجود کیا کسی ماں نے وہ لال جنا جو اشرافیہ کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر پوچھے کہ بتا یہ دولت کے انبار کیسے نمو پائے مگر پانامہ نامی آسمانی آفت، پھر خود ساختہ غلطیاں، پھر وکلا کا غلط اور مسلسل بار بار غلط رہنمائی کرنا اور پھر اناڑی بیٹی کا کھلاڑی باپ کو بم کو لات مارنے کا مشورہ دینا ، انہی سب حالات نے آل شریف کو ہزاروں کنال کے بنگلوں سے چند فٹ کے کمرے میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ۔

(جاری ہے)

کہاں وہ طنطنہ کہ 1100 پولیس والے صرف سیکورٹی پر مامور اور سینکٹروں ملازم الگ سے مگر کہاں یہ وقت کہ صرف دو عدد مالشیے؟ کہاں وہ وقت کہ مریم صاحبہ پور ی کابینہ کو سیاست کے درس دیا کرتی تھیں مگر کہاں یہ پستی کہ اب لوگ جیل کے قیدیوں کو پڑھانے پر بھی اعترض کرنے لگے کہ کہیں ویسا ہی سبق نہ پڑھا دے کہ" میری لندن تو کیا پاکستا ن میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں "کیا خوب ضرب المثل بن چکا کہ جب بھی کسی کو جھوٹا ثابت کرنا ہو یہی ایک فقرہ کہنا کافی ہوتا ہے اور سامنے والا لا جواب ہو جاتا ہے ۔
کہاں وہ وقت کہ پور ے میڈیا ہاوسسز کو Manage کرنے اور اپنی مٹھی میں بند کرنے کی متمنی رہنے والی ایک بیٹی کے لیے آج میڈیا پر موت کا سا سناٹا ہے۔ نہیں معلوم وہ تابعدار ابصار عالم کہاں گئے؟ نہیں معلوم وہ بے قرار طلا ل چوہدری کو کیا ہوا؟ نہیں معلوم وہ دانیال عزیز کس سوراخ میں چھپ گئے اور مجھے تو میرے محترم استاد عرفان صدیقی کے کالم بھی نظر نہیں آرہے اور تو اور وہ جسٹس چوہدری کیوں آواز بلند نہیں کر رہے سبق تو یہی ہے ،اگر کوئی سیکھے؟ کہ بُرے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور کہاں یہ شریف لوگو ں کے شریف ساتھی ۔
میں بچپنے میں سوچا کرتی تھی کہ اللہ کریم نے جو کہا کہ " لوگ پیسہ جمع کرتے رہے حتی کی قبر کی مٹی میں جا سوئے "کے کیا معانی و مفہوم ہیں؟ مگر اب جب ان پیسہ لوٹنے والے درندوں کا انجام دیکھ رہی ہوں تو سمجھتی جا رہی ہوں کہ کیوں ہزاروں مربع زمین ہونے کے باوجود " زر-داری" صاحب ہاتھ کی صفائی سے باز نہیں آرہے کیوں حرص ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہی اور لاکھوں چالاکیاں، ہزاروں وکلا کے پینترے، سینکٹروں ذہین ترین اعتزاز احسن مل کر بھی زر-داری صاحب کو ایک لمحے کی سکون کی نیند اورآخرت کی بے فکری عطا نہیں کر سکے اگر میری بات سمجھ نہ آئے تو عدالت میں آتے ہوئے ان اصحاب کا پریشان چہرہ جھکی کمر دیکھ کر ہی کر سکتے ہیں۔
کیا لوگ تھے کہف کے جنہوں نے اپنے دور کے ظالم ترین حکمران کے سامنے بس ایک کلمہ حق ادا کیا اور اللہ کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ موت کو اصحاب کہف سے ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا اور وہ اب سوتے رہیں گے سکوں کی نیند۔ جو کرپشن کے کھلاڑیوں کو نہ جیل میں آتی ہے نہ بلاول ہاوس میں ؟ان آنکھوں نے تو وہ دور بھی دیکھا کہ جب بھٹو صاحب کہتے تھے "کیا ہوا جو تھوڑی پیتا ہوں "اور یہ دور بھی دیکھا کہ بھٹو کے ماننے والے جیل میں شراب کی بوتلیں ملنے پر پہلے تو پینے سے مکر ے بعد میں ہونے سے ہی مکر گئے جو چاہے ظالم کر لے نہ تو ذرداری تقدیر کے انتقام پر بھاری ہو سکا۔
نہ آل شریف کی شرافت کا بھرم تقدیر کی بے آواز لاٹھی نے قائم رہنے دیا ۔پس ظلم نہ ملک کے حاکم کو زیبا ,نہ کارخانوں کے حاکم کوذیبا ،نہ گھر کے حاکم کو ذیبا کیوں جو آخرت میں سب سے ذیادہ کٹھن سوالات محکوم کے حق کے بارے میں کئے جائیں گے اللہ جانے ہم نے وہ حق ادا کیا یا بس اعتراض کے پتھر دوسروں کے شیشے کے گھروں میں ہی پھینکنے کو رکھے ہیں ؟مجھے نہ جانے کیوں تقدیر کے کارخانے میں یہ صدا گونجتی سنائی دے رہی ہے "وقت ختم ہوا احتساب آنے کو ہے " ہم جویہاں تک پہنچے ہیں ۔
راستے میں ایوب کی چینی کی کہانی بھی آئی ، یحیی کی جنرل رانی بھی آئی ،پھر بھٹو کے ذہین جبر کی ستانی بھی دیکھی ،پھر ضیاء کی اسلام فتانی دیکھی پھر نواز بینظیر پارٹنر شپ سے ملک ذخمی ذخمی ہوتے دیکھا پھر مشرف نے امریکہ سے ہمیں ایسامشرف کیا کہ آج بھی جان کو آیا ہے اور اب ہمیں سامنا ہے ایک قدرت کے احتسابی عمل کا جس کا وزیر اعظم عمران خان نے اللہ کو گواہ بنا کر قوم سے وعدہ کیا۔ اب شاید "وقت ختم ہوا احتساب آنے کو ہے۔

waqt khatam hua, ehtesab aane ko hai is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 September 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.

لاہور کے مزید مضامین :