Mian Sahib! Teaching Hospital Dera Ghazi Khan Mein Apna Ilaaj Kara Len

میاں صاحب! ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان میں اپنا علاج کرا لیں

پیر 11 مارچ 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

میاں نوا ز شریف کی خرابی صحت اور عارضہ قلب پر ایک طوفان بر پا ہے۔ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ حکومت اُن کی علاج کے نام پرتذلیل کر رہی ہے۔ کبھی ایک ہسپتال میں انہیں گھمایا جاتا ہے تو کبھی دوسرے ہسپتال میں اُن کا چیک اپ کرایا جاتا ہے۔ پانچ میڈیکل بورڈ بن چکے ہیں مگر سب لا حاصل رہا ہے۔ اب اُنہیں پاکستان کے کسی ہسپتال سے علاج نہیں کرانا۔ یہاں معیاری طبی سہولیات اور ماہر امراض قلب موجود نہیں۔

دوسری جانب پنجاب اور وفاقی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی سرکاری اور نجی ہسپتال میں اُن کا علاج کرانے کو تیار ہیں۔ میاں صاحب خواہ مخواہ سیاسی ضد کرکے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے حامی اور حکومت اپنے اپنے دلائل کے انبار ٹاک شو ، سوشل میڈیا اور نیوز کی شکل میں بیان کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)


 میں بھی میاں نواز شریف کی جگہ ہوتا تو یہی کرتا کیونکہ میاں صاحب بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں ہیلتھ کیئر کی سہولیات اِ س قدر قابل تعریف نہیں کہ یہ انسانی زندگیوں کو بچا سکیں۔

ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں جو مریض زندہ بچ جائے تو وہ ڈاکٹروں کی قابلیت اور جو جان کھو دے، وہ اللہ کی مرضی کہلاتا ہے۔ میاں برادران سمیت تمام سیاسی لیڈران اپنے ملک کی طبی سہولیات سے بخوبی واقف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ لوگ خود بیمار پڑتے ہیں تو فوری طورپر ملک چھوڑ دیتے ہیں اور اغیار پر اعتبار کرتے ہیں۔
71سالہ تاریخ ِپاکستان گواہ ہے کہ یہاں عام آدمی زندگی جیتا نہیں، بس دن رات بسر کر تا ہے۔

یہاں سانس لینے کا نام زندگی رکھ دیا گیا ہے ۔پاکستان کو ہر سیاسی جماعت کے سیاست دانوں نے اپنے اپنے معیارِہوس کے مطابق لُوٹا ہے۔ یہ سیاست دان جب اقتدار کی غلام گردشوں میں بد مست ہوتے ہیں تو اِن کے چہروں کی تازگی قابل دید نی ہوتی ہے مگر جیسے ہی یہ پابند سلا سل ہوتے ہیں۔ تو انہیں ہمہ قسمی امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ یہ ویل چیئر اورلاٹھیوں کے سہاروں پر منتقل ہو جاتے ہیں۔

کبھی این آر او تو کبھی پس پردہ ڈپلومیسی کی اصلاحات کی آڑ میں ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔
 خدا اِن سیاست دانوں کو لمبی زندگیاں دے تاکہ انہیں ادراک ہو کہ یہاں سسک سسک کر جینا کس کو کہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمرا ن خان کے حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے اپنے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل اور لاہور کے دو نامور پروفیسرز ڈاکٹر ز کو کوٹ لکھپت جیل میاں نواز شریف کے پاس بھیجا تھا اور میاں نواز شریف کو پاکستان کے کسی بھی ہسپتال میں اُن کا علاج کرانے کی آفر دی تھی مگر نواز شریف نے یہ آفر بھی رد کر دی ہے۔

 
زندگی بہت نایاب ہے اگر نواز شریف واقعی ہی خود کو غیر صحت مند محسو س کر رہے ہیں تو بحیثیت عام پاکستانی ہونے کے ناطے میرا انہیں مشورہ ہے کہ میاں صاحب کو فوری طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار اور مشیر صحت پنجاب محمد حنیف خان پتافی کے شہر کے ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان سے انہیں فوری طور پر اپنا علاج کرا لینا چاہیے۔

یہ ہسپتال جنوبی پنجاب تا صوبہ بلوچستان کے کئی اضلاع کے لاکھوں مریضوں کی علا ج گاہ ہے۔وزیر اعلی پنجا ب کے حکم پر اِ س ہسپتال میں عوام کو ہمہ قسمی سہولیات فراہم کرنے کا حکم جاری ہے۔ وزیر صحت پنجاب محترمہ ڈاکٹر راشدہ یاسمین اورمشیر صحت پنجاب محمد حنیف خان پتافی اِ س ہسپتال کی براہ راست خو د نگرانی کر رہے ہیں۔یہ بھی میاں صاحب کو آگاہی ہو کہ میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں اِ س ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کا آغاز شروع ہوا تھا جو کہ تاحال جاری ہے اور اب تک اِ س کی تعمیر اور طبی آلات کی خریداری پر اربوں روپے خر چ بمعہ کرپشن کی نذر ہو چکے ہیں۔

 
مشورہ دینے والا قیامت کے دن اپنی مشاورت کا جواب دہ ہوگا اِس لیے قبل از وقت یہ بھی آپ کو بتا دوں کہ روزانہ ہزاروں غریب مریضوں کی طرح آپ بھی اپنا علاج یہاں کر ا توسکتے ہیں مگر تحریر کردہ حکومتی افراد کے ناموں سے متاثر ہونے کی غلطی مت کیجیے گا کیونکہ اِس ہسپتال میں ہیلتھ کیئر، ملک بھر کے دیگر سرکاری ہسپتالوں جیسی ہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر کمشنر ڈیرہ غازیخان طاہر خورشید اور ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان محمد اقبا ل مظہرروز انہ بلا ناغہ وزٹ کرتے ہیں مگر ہر وزٹ پر سربراہ ادارہ ایم ایس ڈاکٹر شاہد سلیم اور میڈیکل سٹاف کی ایک نئی پیشہ وارانہ غفلت ظاہر ہوتی ہیں۔

گذشتہ تین ماہ سے ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان مسلسل ہسپتال کی خامیوں کی نشاندہی تحریری طور پر سیکرٹری ہیلتھ ثاقب ظفر کوکر رہے ہیں مگر چونکہ ایم ایس کو کسی بہت بڑے نامور سیاست دان اور بیورو کریٹ کی حمایت حاصل ہے اِس لیے ڈپٹی کمشنر کے تحریرکردہ لیٹر ز کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کا حکم بھی شنید میں ہے۔
 یہاں روزانہ لوگ سسک سسک کر مرتے ہیں۔

وارڈ میں کون ڈاکٹر ہے اور کو ن ڈسپنسر یا پھر کون پرائیویٹ آدمی ،کوئی پتہ نہیں چلتا کیونکہ سرکاری حکم نامہ کے باوجود یہاں کے ڈاکٹر ز اور پیرا میڈیکل سٹاف اپنا یونیفارم نہیں پہنتے ۔جس کی وجہ سے کسی کی شناخت ممکن ہی نہیں ہوتی۔ گذشتہ دنوں ایک نوجوان خاتون کو معدے میں تکلیف کی شکایت پر ایمرجنسی وارڈ میں لا یا گیا تو اُس کو ایک فرد نے جیسے ہی انجکشن لگایا تو اُس کی طبیعت خراب ہونے لگی ۔

مریضہ نے دوران انجکشن اُس فر د کو آگاہ بھی کیا کہ اُس کو چکر آنے لگے ہیں، اُس سے یہ انجکشن برادشت نہیں ہو رہا ۔ تو انجکشن لگانے والے فرد نے کہا انجکشن کے بارے میں میں زیادہ جانتا ہوں یا آپ۔ بس پھر چند منٹوں میں وہ نوجوان خاتون اپنے بچوں کو درد یتیمی دیتے ہوئے اِس دُنیا سے رخصت ہو گئی۔ لواحقین چیخ و پکار کرتے رہے کسی نے میت منتقل کرنے لیے سٹریچر بھی دینا گواراہ تک نہ کیا۔

لواحقین نے احتجاج کی کوشش کی تو فوری طور پر پولیس پہنچ گئی اور لواحقین کو کفن دفن کرنے کا کہہ کر ہسپتال سے چلتا کر دیا گیا۔ کیونکہ انجکشن لگانے والا فرد طاقتور ڈاکٹروں کے ایک ادارہ شفا انسٹی ٹیوٹ آف پیرا میڈیکل سائنس ڈیرہ غازی خان کاطالب علم تھا۔ جس کو ایم ایس ڈاکٹر شاہد سلیم نے ڈریسنگ روم ، ٹراما سنٹر، چلڈرن وارڈ اور ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے یعنی لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت دی تھی۔

اِ س لیے معاملے کو فوری طورپر دبا دیا گیا۔ 
35کرو ڑ روپے کے خطیر بجٹ برائے ادویات کے باوجوداِس ہسپتا ل میں ادویات کئی ماہ سے نایاب ہیں مگر دوستوں کو نوازنے کی خاطر آرائش ہسپتال پر لاکھوں روپے کا خرچہ بمعہ کرپشن جاری ہے۔ لوگ طبی سہولیات کے فقدان کی نباپر مر رہے ہیں مگر سکیورٹی کیمروں کی خریداری پر لاکھوں روپے صرف کیے جار ہے ہیں۔

سی ٹی مشین، ایکسرے مشین اکثر و بیشتر خراب رہتی ہیں تاہم بیرون ہسپتال کمیشن پر یہ ٹیسٹ ہو جاتے ہیں۔ مسیحا سرکاری ڈیوٹی پر ایسے آتے ہیں جیسے وہ سرکار پر احسان کر رہے ہوں۔ او پی ڈی میں روزانہ مریضوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر ضرور آتی ہیں مگر انہیںآ خر تھک ہا ر کر ڈاکٹر ز کے نجی کلینکس سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ شعبہ فنانس پر بدکردار اور مالی کرپٹ افراد کا راج ہے اِس لیے آپریشن تھیٹرز کے طبی آلات سمیت دیگر روز مرہ ضروریات کی اشیا ء کی خریداری میں کرپشن کی بناپر اُن کا معیار ناقص ہے۔

 میاں صاحب اِن تمام باتوں پر حیران ہونے کی زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ کرپشن کا وہ کھیل ہے جوکہ آ پ کے دور حکومتوں میں بھی جاری و ساری رہتا تھا۔ اب فرق صرف نئے پاکستان کے نعرہ کا ہے۔میاں صاحب اگر وزیر اعلی پنجاب کے شہر کے ٹیچنگ ہسپتال میں اِن تمام حالات کی بناپر آپ علاج کرانے سے گھبرائیں تو گیلپ سروے 2015کے مطابق 1167 ہسپتال اور184711 رجسٹرڈ ڈاکٹر پاکستان میں اور بھی موجو د ہیں اور اِس تعداد میں گذشتہ تین سالو ں میں کچھ اضافہ بھی ہو ا ہوگا۔

اُن میں سے کسی ہسپتا ل میں اپنا علاج کرانا پسند کریں تو یہ یقینی طوپر حکومت پاکستا ن بھی اِس پر رضا مندہو جائے گی اور آپ بھی کروڑوں پاکستانی کی صف میں شامل ہوکر ،ممکن ہے کہ چوتھی بار عوام کے وزیر اعظم پھر سے بن جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Urdu Column Mian Sahib! Teaching Hospital Dera Ghazi Khan Mein Apna Ilaaj Kara Len Column By Muhammad Sikandar Haider, the column was published on 11 March 2019. Muhammad Sikandar Haider has written 54 columns on Urdu Point. Read all columns written by Muhammad Sikandar Haider on the site, related to politics, social issues and international affairs with in depth analysis and research.

ڈیرہ غازی خان کے مزید کالمز :