Sifarshi Tayinatiyaan Merit Ka Qatal

سفارشی تعیناتیاں میرٹ کا قتل

بدھ 20 فروری 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدارمسلسل مخالفین کی تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ مخالفین کو جنوبی پنجاب کی عشروں کی پسماندگی کا خاتمہ اور محروم زدہ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی برادشت نہیں ہو رہی ۔گذشتہ چھ ماہ میں اربوں روپے کے پروجیکٹس ضلع ڈیرہ غازی خان کو مل چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے آبائی ضلع میں بیورو کریسی خو د کو تبدیل کر چکی ہے۔


سرکاری افسران بالخصوص موجودہ کمشنر ڈیرہ غازی خان طاہر خورشید اور ڈپٹی کمشنر محمد اقبال مظہر نے روایتی انداز افسر شاہی بدل لیا ہے اور ممکن حد تک عوام کو ریلیف دینے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔ تمام محکمہ جات اپنا اپنا قبلہ درست کر رہے ہیں مگر صحت عامہ سے وابستہ شہر کا اکلوتاسرکاری ٹیچنگ ہسپتال تاحال پرانی سیاسی سفارش کلچر کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

گذشتہ چھ ماہ میں پانچ میڈیکل سپریٹنڈنٹ یہاں تبدیل ہو چکے ہیں مگر حکومت پنجاب کو ابھی تک انتظامی صلاحیتوں کاحامل ایم ایس میسر نہیں آرہا۔
 موجودہ میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد سلیم کوخلاف میرٹ سیاسی سفارش پر یہاں تعینات کیا گیا ہے جب سے وہ یہاں تعینات ہوئے ہیں ایک طرف روزانہ ہزاروں مریض جن کا تعلق اضلاع ڈیرہ غازی خان ، راجن پور اور بلوچستان سے ہوتا ہے وہ طبی سہولیات کے فقدان، نااہل انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی بے حسی کی بناپر مر رہے ہیں دوسری طرف ضلعی انتظامیہ کے افسران جو وزیر اعلیٰ پنجاب کے شہر میں سوفیصد عوام کو ریلیف دینے چاہتے ہیں وہ نااہل انتظامیہ کی بناپر سخت پریشان ہیں۔

ضلعی انتظامیہ مسلسل سرکاری لیٹرز میں ٹیچنگ ہسپتال کے روز بروز بگڑتے ہوئے معاملات کی نشاندہی کر رہی ہے مگر حکومت پنجاب کے اعلیٰ افسران سیاسی سفارش پر تعینات ایم ایس کو تبدیل کرنے کو تیار نہیں اور مسلسل ضد پر قائم ہیں جبکہ مقامی ضلعی انتظامیہ سخت پریشانی کا شکار ہے کیونکہ عوام کی شکایات کی براہ راست شنوائی کی ذمہ داری اُن پر عائد ہے۔


 ٹیچنگ ہسپتال میں روزانہ پیش آنے والے پیشہ وارانہ غفلت اور میڈیکل عملہ کی شکایات کو اگر یک جا کیا جائے تو روزانہ ایک مکمل ناول بنتاہے۔ڈپٹی کمشنر محمد اقبا ل مظہرنے وزیر اعلی پنجاب کے حکم پرروایتی انداز افسری کو عملی طوپر تبدیل کر کے دکھایا ہے وہ نماز فجر کے بعد سے شہر کا وزٹ شروع کرتے ہیں اور نماز عشاء کے بعد بھی دفتر میں موجو د ہوتے ہیں۔

مگر اُن کی یہ تمام محنت ٹیچنگ ہسپتال کی عوامی شکایات کے سامنے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ کیونکہ جب سربراہ ادارہ ہی نااہل ہو تو پھر کیسے اُس ادارہ میں انتظامی بہتری لائی جاسکتی ہے۔
چند عوامی شکایات جن پر ڈپٹی کمشنر نے خود ایکشن لیا ہے اُن کا احوال قابل فکر ہے۔ شہری غلام مجتبیٰ نے ڈپٹی کمشنر کو تحریری طورپر شکایت کی کہ وہ اپنے والد کو اچانک طبیعت خراب (نیورو پرابلم)ہونے پر ٹیچنگ ہسپتال لے کر گیا تو وہاں کوئی نیورو ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔

موجو د عملہ نے کہا کہ سی ٹی سکین کراؤ، جب میں سی ٹی سکین کرانے متعلقہ روم میں گیا تو وہ کمرہ بھی بند تھا۔ کوئی ٹیکنیشن کوئی ڈاکٹر وہاں بھی موجو دنہیں تھا۔ دیگر مریض بھی وہاں بے بسی میں ذلیل ہو رہے تھے ایم ایس ڈاکٹر شاہد سلیم سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تو اُس کا کہنا تھا وہ چھٹی پر ہے۔ ڈی ایم ایس کی موجودگی کے بارے میں پوچھا تو وہ بھی موجود نہیں تھا۔

اِس دوران مریض کی حالت مذید بگڑ گئی۔
 دو گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد سلیمان نامی ملازم نے بتایا کہ سی ٹی سکین مشین کا UPSگذشتہ 12دنوں سے خراب ہے۔ آپ بازار سے سی ٹی سکین کرا لو۔شکایت کنندہ کے بقول ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازیخان کا بڑا ہسپتال ہے یہاں پرانتظامی بد نظمی کی بناپر مریضوں کو ہسپتال سے باہر سی ٹی سکین اور دیگر ٹیسٹ وغیرہ کرانے کے لیے ایک طرف مشینوں کو خراب ظاہر کیا جاتا ہے تو دوسری طرف کمیشن کی خاطر مریضوں کو ریفر کر دیا جاتا ہے۔

کلریکل سٹاف سرعام رشوت کھاتے ہیں۔ محکمہ انٹی کرپشن کے چھاپے پڑ چکے ہیں انکوئریاں ہو چکی ہیں ، مریضوں کو دوائی کی پرچی تو لکھ دی جاتی ہے مگر فارمیسی میں دوائی نہیں ملتی اور باہر سے خریدنی پڑتی ہے۔ غلام مجتبیٰ کی اِس شکایت پر ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر صدر کو انکوئری آفیسر مقر رکیا جوکہ تاحال تاخیر کا شکار ہے۔
 گورنمنٹ دانش سکول کی پرنسپل مسز حسیب عالم نے ڈپٹی کمشنر کو تحریری شکایت کی ہے کہ وہ گذشتہ رات تقریبا ً3بجے شب اپنے خاوند کی اچانک سخت طبیعت (سانس کی تکلیف) ناسازہونے پر ٹیچنگ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں اپنے خاوند کو لے کر گئیں۔

ڈیوٹی ڈاکٹر نے انہیں رو م نمبر 8میں ریفر کر دیا۔ وہاں تین ڈاکٹرز بشمول دو لیڈی ڈاکٹرز خوش گیپیوں میں مصروف تھے جنہوں نے مریض کو دیکھنا تک گوار ا نہ کیا اور ہمیں ادویات باہر سے لانے کا حکم دیا اور پھر ایک نرس اور ایک وارڈ بوائے کو حکم دیا کہ انہیں انجکشن لگا دو ، nebulize کر دو۔ پانچ منٹ بعد ہمیں زبردستی گھر رخصت کر دیا گیا کہ مریض ٹھیک ہے آپ گھر جائیں۔

رات کے آخری پہر جب ہم گھر کے دروازے پر پہنچے تو مریض کی حالت پھر سے بگڑ گئی ۔ باامرمجبوری ہمیں واپس ہسپتال آنا پڑا۔ ایک دفعہ پھرڈاکٹر رو م نمبر 8میں ریفر کر دیا گیامگر دوسری مرتبہ بھی اُن تینوں ڈاکٹرز کی روایتی بے حسی برقرار رہی جب سفارشی کال کرائی تو اُن تینوں ڈاکٹروں کو یہ بات بھی ناگوار گزری اور پھر اُنہوں نے مریض کو چیک کیا۔


مسز حسب عالم کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب نے ہسپتال کی عمار ت کو تو بہت خوبصورت بنا دیا ہے مگرہسپتال کے احساس ترین وارڈ ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹروں کی روایتی بے حسی کو ختم کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے۔ کم از کم ایمرجنسی وارڈ میں تو انسانیت کی قدر کی جائے۔
اِس شکایت پر ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر (یوٹی ) قدسیہ ناز کو انکوئری آفیسر تعینات کیا جس نے رپورٹ دی ہے کہ پرنسپل مسز حسیب عالم کی بیان کر دہ شکایت درست ہے اور ڈاکٹروں نے پیشہ وارانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے روایتی بے حسی کو قائم رکھا ہے۔


ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان نے ٹیچنگ ہسپتال کی مسلسل بڑھتی ہوئی شکایات پر ایک تفصیلی لیٹر بنام سیکٹریری ہیلتھ سیشپلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن پنجاب لاہو ر کو تحریر کیا ہے جس کے مندرجات کچھ یوں ہیں کہ ایم ایس ڈاکٹر شاہد سلیم کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ ایمرجنسی وارڈ کے آن لائن کمپیوٹرائزڈ ریسپشن کاونٹر پرمطلوبہ اہلیت کے حامل سٹاف کو تعینات کرئے مگر ایم ایس نے اِس ہدایت پر کان ہی نہیں دھرے۔

پیرامیڈیکل سٹاف کو مقررہ یونیفارم بمعہ نیم بیجز لگانے کا حکم دیا تھا مگرکسی نے اِس ہدایت پر عمل نہیں کیا اور دوران وزٹ پیرا میڈیکل سٹاف بغیر یونیفارم موجو د تھا۔ شوگر چیک کرنے والے کاونٹر پرگلوکومیٹرہی موجو دنہیں تھا۔کاونٹر نمبر 3پر ڈیوٹی میڈیکل آفیسر آن لائن کمپیوٹرائزڈسسٹم میں مریضوں کے نسخہ جات تحریر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا جس پر ایم ایس کو ہدایت دی گئی تھی کہ کاونٹر نمبر 3پر کوئی کمپیوٹر آپریٹر ملازم کی ڈیوٹی لگائی جائے مگر ایم ایس نے اِس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی۔


 ایمرجنسی وارڈ ز کے دو بیڈز پر گند ی چادریں موجود تھیں حتیٰ کہ ایک بیڈشیٹ پر مریض کا پیشاب موجود تھا اور اُس پر مکھیاں اُڑ رہی تھیں اور اِن بیڈز کے ساتھ تین آن ڈیوٹی ڈاکٹرز ڈاکٹر شوکت حسین، ڈی ایم ایس ڈاکٹر سلیمان اور ڈاکٹر ظفر بمعہ دیگر عملہ موجود تھے مگرکسی ایک فرد نے بھی بیڈز شیٹ تبدیل نہیں کرائی۔ فارمیسی کے ایک اہلکارنے بزرگ خاتون کو دوائی دیتے ہوئے ڈبل مقدار میں دوائی کھانے کاکہا جبکہ نسخہ پر بزرگ خاتون مریض کو ڈاکٹر نے دن میں ایک مرتبہ دوائی کھانا تجویز کر رکھا تھا جوکہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کی غلطی تھی مگر ایم ایس ڈاکٹر شاہد سلیم نے اِس بات کو بھی معمول کی بات قرار دیا۔

نیو بلڈنگ کے گائنی وارڈ میں آن ڈیوٹی لیڈی ڈاکٹر اپنے وارڈ سے غائب تھی اور وہ دوسرے وارڈ کے روم میں سو رہی تھی۔
 گائنی وارڈ کے مسائل سب سے زیادہ ہیں اور خواتین گائنی وارڈ کے باہر سٹرکوں پر بچے جنم دی رہی ہیں اور لاپرواہی کی بناپر حاملہ خواتین کے پیٹ میں بچے مر رہے ہیں۔ لوگوں احتجاج کر رہے ہیں مگر انتظامیہ کو کوئی پرواہ نہیں اگر اِسی طرح ایم ایس غفلت کا شکار اور انتظامی لاپرواہی جاری رہی تو کسی بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ٹیچنگ ہسپتال کے میڈیکل عملہ کے رویے میں فوری طور پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایم ایس ہسپتال کے انتظامی امور کا انچارج ہے مگر اُس کا رویہ قابل احتساب ہے۔ ایم ایس کو دی جانے والی ہدایات پر فوری عمل کرنا چاہیے تاکہ عوام کو ٹیچنگ ہسپتال میں ریلیف مل سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Urdu Column Sifarshi Tayinatiyaan Merit Ka Qatal Column By Muhammad Sikandar Haider, the column was published on 20 February 2019. Muhammad Sikandar Haider has written 54 columns on Urdu Point. Read all columns written by Muhammad Sikandar Haider on the site, related to politics, social issues and international affairs with in depth analysis and research.

ڈیرہ غازی خان کے مزید کالمز :