Kahin Deer Na HO Jaye
کہیں دیر نہ ہو جائے
بدھ 29 جنوری 2014
نواز لیگ کی حکومت سے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں اور خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت سے بھی ،لیکن دونوں نے مایوس کیا ۔
(جاری ہے)
۔۔۔ بہت مایوس۔ تحریکِ انصاف کی ”جذباتی”سیاست کا تو محور و مرکز ہی یہ تھا اور ہے کہ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
تحریکِ انصاف سے تو پھر بھی یہ خیال کرتے ہوئے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے کہ وہ کارزارِ سیاست کی نوزائیدہ اور نَو وارد جماعت ہے جسے حکمرانی کا تجربہ نہیں لیکن نواز لیگ تو اِس میدان کی کُہنہ مشق کھلاڑی ہے اور خوب جانتی ہے کہ مشکل گھاٹیوں کو کیسے پار کیا جاتا ہے۔آٹھ ماہ گزر چکے لیکن نواز لیگ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور تا حا ل کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اُس نے کیا کرنا ہے ۔میاں برادران کا یہ انوکھا اور نرالا اندازِ سیاست دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاست کے سَرکش گھوڑے کی طنابیں کھینچنے کی اُن میں سَکت ہی باقی نہیں بچی ۔بجا کہ ”دودھ کا جَلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے “ اور میاں برادران تو ایک نہیں دو،دو مرتبہ ”دودھ کے جَلے “ ہیں لیکن ایسی احتیاط بھی کس کام کی جو قوم کے اعتماد کو ہی متزلزل کر دے ۔ہم یہ تو ہر گز نہیں کہتے کہ ”قدم بڑھاوٴ نواز شریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں “ ۔کیونکہ میاں صاحب اس کا مزہ چکھ چکے ہیں لیکن دست بستہ یہ ضرور عرض کرتے ہیں کہ احتیاط لازم لیکن اِس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے بہتر یہی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کر گزریے کہ اب قوم کے صبر کا پیمانہ چھلکنے کو ہے ۔
آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر نواز لیگ کو مذاکرات یا ایکشن کا مینڈیٹ دیا لیکن تا حال حکومت گو مگو کی کیفیت سے دوچار نظر آتی ہے جبکہ اِس دوران طالبان نے متواتر دھماکے کرکے فوجی جوانوں سمیت بہت سے شہریوں کو شہید کر دیا ۔ بنّوں میں افواجِ پاکستان پر براہِ راست حملہ کرنے کے بعد طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے یہ کہا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جو جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف تھا ۔فوج نے ردِ عمل میں جارحانہ کارروائی کرکے طالبان کو یہ درست پیغام دے دیا کہ اب مزید صبر کی گنجائش نہیں ، وہ ایک ماریں گے تو ہم دَس ۔شنید ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب نے بھی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو بھرپور جواب دینے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن اب بھی حکومتِ وقت میں جھجک کا واضح عنصر نظر آتا ہے ۔طالبان نے ایک دفعہ پھر مذاکرات کی پیش کش کرکے حکومتی بیقراری میں اضافہ کر دیا ہے ۔اور اب ایک دفعہ پھر ایوانِ اقتدارکے بزرجمہر سَر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں حالانکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ افواجِ پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی سے پریشان ہو کر طالبان نے یہ سیاسی چال چلی ہے ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ طالبان کے چالیس ، پچاس گروہوں میں سے اچھّے اور بُرے طالبان کو الگ کیا جائے گا ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت کے پاس ایسی کونسی چھلنی ہے جس میں چھان پھٹک کروہ اچھّے اور بُرے طالبان کو الگ کرے گی ۔حقیقت تو یہی ہے کہ طالبان کے سبھی گروہ اِس وقت خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث اور مُلا فضل اللہ کی چھتری کے نیچے ہیں ۔کیا حکومت کے لیے یہ کافی نہیں کہ طالبان کا متفقہ امیر مُلا فضل اللہ حکومت کا باغی اور بھگوڑا ہے ؟۔کیا حکومت اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں نہیں جانتیں کہ ملا فضل اللہ کے پاس افغانی پاسپورٹ ہے اور وہ اُسی پاسپورٹ پر بیرونی ممالک کے دورے بھی کرتا ہے ؟۔اور سلگتا ہوا سوال یہ کہ کیا افغانستان میں سرِ عام پھرنے اور بیرونی دَورے کرنے والے مُلا فضل اللہ کو واصلِ جہنم کرنا امریکہ کے لیے کوئی مسلہ ہے ؟۔جب ملا فضل اللہ ”کنڑ“ میں افغان حکومت کی پناہ میں تھا تب بھی امریکہ کے لیے اسے ”شکار“ کرنا کوئی مسلہ تھا ، نہ اب ہے لیکن امریکہ ایسا ہر گز نہیں کرے گا کیونکہ اُسے پاکستان میں بَد امنی بہت مرغوب ہے ۔
یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سبھی طالبان آئینِ پاکستان کے باغی ہیں اِس لیے علمائے کرام کی طرف سے چھیڑی گئی اچھے اور بُرے طالبان کی بحث فضول ہے ۔مذہبی اور مسلکی مباحث کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔جب ہلاکو کے سپاہی بغداد کی فصیلوں پر کمندیں ڈال رہے تھے تب بغداد کے طول و عرض میں پانچ سو جگہوں پر بغداد کے علماء مذہبی و مسلکی مناظروں میں اُلجھے ہوئے تھے ۔سکوتِ بغداد کی خون آشام داستان اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن کوئی بھی مورخ بغداد کی تباہی میں علماء کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔آج بھی وہی صورتِ حال ہے ۔کچھ مذہبی گروہ ”طالبانی شریعت“ کو عین اسلام قرار دیتے ہیں تو کچھ کھلی دہشت گردی ۔جب دست بستہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اسلام بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کی اجازت دیتا ہے ؟۔تو جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کی مذمت کی جانی چاہیے کیونکہ یہ CIA اور ”را “ کے ایجنٹ ہیں۔ اگراِس جواز کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مُلا فضل اللہ تو مسلمہ غیر ملکی ایجنٹ ہی ٹھہرے گا کیونکہ اُس کے ترجمان احسان اللہ احسان اور شاہد اللہ شاہد بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد سینہ تان کر ”ذمہ داری“ قبول کرتے ہیں ۔کیا طالبانی عشق میں مبتلاء انتہائی محترم علمائے کرام مُلا فضل اللہ اور اُس کے ساتھی طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے حکومتِ وقت سے اُن کے خلاف کارروائی کا تقاضہ کریں گے ؟۔اگر نہیں تو پھر کیا پاکستان کی تاریخ کا یہ خونچکاں باب لکھتے ہوئے مورخ علماء کے اِس کردارکو نظر اندازکر پائے گا؟۔
اَن دیکھی ، اَن جانی اور اندھی موت سے لرزہ بَر اندام لو گوں کے بارے میں یونانی داستان گو ایسوپ کہتا ہے ”مسلسل خوف کی حالت میں زندہ رہنے سے مَر جانا بہتر ہے “ ۔فرانسس بیکن کہتا ہے ”میں نے موت کے بارے میں غور و فکر کیا اور اُسے خوف سے انتہائی کم تر درجے کا پایا “۔قوم کے سَر سے تو ہر روز بلکہ دن میں کئی کئی بار موجِ خوں گزرتی ہے لیکن آفرین ہے اُن حال مستوں پر جو خاموشی سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں ۔یہ تو طالبان بھی جانتے ہی ہوں گے کہ اُن کی تمام تر دہشت گردی اور خباثتوں کے باوجود یہ بہادر اور عزمِ صمیم کی مالک قوم کاروبارِ حیات میں یوں مگن رہتی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور طالبانی درندگی کی بھینٹ چڑھنے والے شہیدوں کے کٹے پھٹے جسم بھی پکار پکار کے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مَرگ ہم نے بھلا دیا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Urdu Column Kahin Deer Na HO Jaye Column By Prof.Mazhar, the column was published on 29 January 2014. Prof.Mazhar has written 152 columns on Urdu Point. Read all columns written by Prof.Mazhar on the site, related to politics, social issues and international affairs with in depth analysis and research.
متعلقہ عنوان :
دیر کے مزید کالمز :
دیر آئید درست آئید (مریم طاہر)
Deer Ayeed Durust Ayeed
عالمی اسلامی فوج کا قیام،اب کیا دیر ہے ؟؟؟(قاسم علی)
Aalmi Islami Fouj Ka Qayyam
کہیں دیر نہ ہو جائے(پروفیسر مظہر)
Kahin Deer Na HO Jaye
ساڈی واری آن دِیو(پروفیسر رفعت مظہر)
Saadi Wari Aan Deo
فیصلہ میں دیر کی وجہ؟(اشفاق رحمانی)
Faisla Main Deer Ki Waja
میاں صاحب! دیر کس بات کی!!!(فرخ شہباز وڑائچ)
Mian Sahab Deer Kis Baat Ki?
پاکستان روس تعلقات۔۔۔دیر آید درست آید(سید شاہد عباس)
Pak Russia Taluqat
دیکھنا کہیں دیر نہ ہو جائے(یونس مجاز)
Dekhna Kahin Deer Na HO Jaye
پھر دیر ہو چکی ہے(ایس نیئر)
Phir Deer Ho Chuki Hai
بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے(عبدالرحیم انجان)
Buhat Deer Karni MeherbaaN Aate Aate
کہیں جاگتے جاگتے دیر نہ ہو جائے(مشتاق احمد قریشی)
Kahin Jagte Jagte Deer Na Ho Jaye
کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔۔۔!(صدف اکبانی)
Kahin Deer Na Ho Jaye
دیر سے متعلقہ
پاکستان کے کالمز
-
رابطہ پلوں کی خستہ حالی حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان
(ناصرعالم)
-
سوات میں ناقص سیوریج سسٹم عوام کے لئے وبال جان
(ناصرعالم)
-
پسرور کے قابل فخر سرجن ڈاکٹر میاں ولید انجم کا خصوصی اعزاز
(محمد صہیب فاروق)
-
ایک نہیں بہت سی بلڈنگیں گرنے کو ہیں
(سید عارف مصطفیٰ)
-
سوات کے عوام کو ریلیف ملے گا؟
(ناصرعالم)
-
ترقیاتی منصوبوں کا رخ ادھر بھی ہونا چاہیے
(فیاض محمود خان)
-
صحت سہولیات کیلئے ترستے عوام۔۔۔؟؟
(ناصرعالم)
-
سوات میں بدترین مہنگائی اور عوام کی دہائی
(ناصرعالم)