طاقت ور ادارے وہ کام کر رہے ہیں جو ان کے کرنے کے نہیں، محمدعثمان کاکڑ

بدقسمتی سے پاکستان میں دو ملک ہیں ایک امیروں کیلئے اور ایک غریبوں کے لئے، چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے پسماندہ علاقہ جات

منگل 8 جنوری 2019 23:35

بدین(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جنوری2019ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پسماندہ علاقہ جات کے چیئرمین محمد عثمان کاکڑ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں دو ملک ہیں ایک امیروں کے لیے اور ایک غریبوں کے لئے ،طاقت ور ادارے وہ کام کر رہے ہیں جو ان کے کرنے کے نہیں ۔

(جاری ہے)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پسماندہ علاقہ جات محمد عثمان کاکڑ نے کمیٹی کے دیگر ارکان سینیٹر انجینئر گیانچند، نگہت مرزا، سردار شفیق اور سنیٹر محمد خان کے ہمراہ بدین کی تیل اور گیس فیلڈ کے دورہ کے بعد بدین دربار ہال میں مختلف وفاقی اور سرکاری اداروں کے افسران کے اجلاس اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے 71 فیصد پسماندہ علاقوں میں سے 95 فیصد قدرتی خزانے اور دولت حاصل کرنے کے باوجود ان پسماندہ علاقوں کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارے پر مجبور ہیں انہوں نے کہا پاکستان میں دو ملک ہیں ایک جنت اور ایک دوزخ ہے ایک میں ہر سہولت مراعات وسائل اور زندگی کی تمام آزائیشیں اور ایک میں بھوک فلاس غربت بے روزگاری اور بدآمنی ہے سنیٹر محمد عثمان کاکڑ نے کہا 71 سال سے ہر حکمران نے غلط منصوبہ بندی کی اس ملک کو سب نے لوٹا. طاقت ور ادارے جن کا کام ڈیم بنانا نہیں وہ ڈیم ڈیم کر رہے ہیں اسے کالاباغ سمیت تمام متنازع ڈیمز کو ہم نامنظور کرتے ہیں زمہ دار اپنی زمہ داری محسوس کریں ملک کو افراتفری کی جانب نہ لے کر جائیں ملک پر رحم کریں انہوں نے کہا بدین سمیت جن علاقوں سے تیل اور گیس اور دیگر قدرتی خزانے اور وسائل حاصل کئے جا رہے ہیں ان علاقوں کے عوام کو پینے کے پانی صحت علاج بجلی گیس تعلیم روڈ رستوں سمیت دیگر بنیادی سہولتیں اور حقوق بھی دستیاب نہیں انہوں نے کہا این ایف سی ایوارڈ میں پسماندہ علاقوں کے لئے 15 فیصد بھی مختص نہیں کیا جاتا تیل گیس کمپنیاں اور حکومتیں ماہنہ اربوں روپے کمانے اور حاصل کرنے کے باوجود بدین سمیت ان علاقوں میں جدید دور کے تقاضوں اور عالی معیار کا ایک بھی اسکول کالیج یونی ورسٹی خواتین کے لئے وکیشنل اسکول ہسپتال لابئیاٹری سپورٹ کمپلیکس بنا کر نہیں دیا نہ نوجونوں کو ملک سے باہر عالی تعلیم کے لئے اسکالرشپ بھی نہیں دے رہے ہیں مقامی نوجوانوں کو ملازمتوں میں نظرانداز کیا جارہا ہے انہوں نے کہا پانی کی قلت کے باعث زرعی معشیت تباہ ہو رہ گئی ہے لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتں کوئی اقدام نہیں کر رہیں.انہوں نے کہا ڈپٹی کمیشنر کی رپورٹ کے مطابق بدین کی303 اسکولوں کی عمارتیں حطرناک حالت میں ہیں جبکہ 671 اسکول شٹرلش ہیں سمندری طوفان سیلابی باشوں کے نقصانات پر قابو پانے کے لئے اور حطرات کو کم سے کم کرنے کے لئے کوئی بھی منصونہ بندی نہیں بدین زرعی علاقہ ہے پر پانی کی قلت چوری اور غلط تقسیم کے باعث گندم گنا چاول سورج مھکی سمت دیگر اجناس کی پیداوار حدف سے پچاس سے ستر فیصد کم ہوئی ہے سنیٹر عثمان کاکڑ نے کہا بدین کے منتخب نمائندوں کا اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر افسوس ہوا ہے ہم نے تو انتظامیہ کو کہا تھا کہ تمام منتخب نمائندوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جائی. سنیٹر عثمان کاکڑ نے کہا وہ ایون میں رپورٹ پیش کرنے کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو بھی بدین ضلع کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کر نے کے علاوہ ان کے حل کے لئے آواز بلند کریں گے اور کمیٹی کی تجویزات اور شفارشات سے آگاہ کریں گے۔

بدین میں شائع ہونے والی مزید خبریں