فورٹ عباس میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے متنازعہ معاملے پر سینکڑوں پولیس اہلکاروں کی گاؤں چک 341ایچ آر پر چڑھائی ، گاؤں کو آگ لگادی،گھر گاڑیاں اور کروڑوں روپے مالیت کا سامان جل کر راکھ ،پولیس اہلکاروں کاخواتین پرتشدد،سرعام گلیوں میں گھسیٹتے رہے ، متعدد خواتین بے ہوش ،بعض کی حالت تشویشناک ، دو بچے آگ میں جل گئے، خواتین کا دعویٰ،مشتعل پولیس اہلکاروں کا میڈیا ٹیم پر بھی تشدد

پیر 17 نومبر 2014 20:22

فورٹ عباس (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17نومبر 2014ء) بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے متنازعہ معاملے اور ڈی ایس پی پر مبینہ تشدد کے انتقام میں ڈی پی او کی سربراہی میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے چک 341ایچ آر پر چڑھائی کرکے پورے گاؤں کو آگ لگادی اور وہاں گاڑیوں اور گھرمیں پڑی کروڑوں مالیت کی کپاس اور دیگر سامان جلاکر راکھ کردی اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور پنجاب پولیس کے گلو بٹوں نے چادروچاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر نہتی خواتین کو شدید تشددکا نشانہ بنایا اور انہیں سرعام گلیوں میں گھسیٹا جس کے نتیجے میں متعدد خواتین بے ہوش ہو گئیں،بعض کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ، خواتین کے مطابق آگ میں دو بچے بھی جل گئے، مشتعل پولیس اہلکاروں نے کوریج کیلئے آئی میڈیا ٹیم پر بھی تشدد کیا ،اس دوران پولیس اہلکاروں اور کسان اتحاد میں تصادم بھی ہوا، کسان اتحاد نے واقعے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے مروٹ میں ٹائر جلا کر بہاولنگر سے بہاولپور روڈ ہرقسم کی ٹریفک کیلئے بلاک کر دی، پولیس 100 سے زائد بے قصور لوگوں کو پکڑ کر ساتھ لے گئی۔

(جاری ہے)

مظاہرین نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے واقعے کا نوٹس لے کر پولیس والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز گزشتہ روز ڈی ایس پی فورس عباس کسان اتحاد سے بلوں کی ادائیگی کے معاملے پر بات کرنے مروت کے نواحی گاؤں 341ایچ آر میں گئے جہاں کسان اتحاد کے کارکنوں نے ڈی ایس پی پر تشدد کرکے انہیں شدید زخمی کر دیا، جس پر ڈی پی او بہاولنگر پیر کو پولیس کی 2500 نفری لے کر مروٹ میں پہنچ گئے، لیکن کسان اتحاد کے قائدین اور کارکن اس سے پہلے ہی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن پنجاب پولیس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور پولیس نے مروٹ کے نواح میں تین گاؤں کا محاصرہ کر کے اور سارا دن تینوں گاؤں میں کرفیو کا ماحول بنائے رکھا، اس دوران جو بھی بخش گھر سے باہر نکلتا، اس پر بدترین تشدد کے بعد بے ہوش کر کے پھینک دیا جاتا، مشتعل پولیس اہلکاروں نے گاؤں 341 ایچ آر میں گھروں پر فائرنگ کی لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

پولیس اہلکاروں نے ڈی پی او کے حکم پر چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کر دیا۔ مشتعل پولیس اہلکاروں نے گاؤں کے بے قصور تمام لوگوں کے گھروں میں گھس کر بزرگوں، خواتین اور بچوں پر تشدد کیا، تشدد کے دوران کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے گاؤں کے تمام گھروں میں لوٹ مار کرنے کے بعد گھروں کو آگ لگا دی، جس سے پہلے ہی غربت کے ستائے لوگوں کے پاس پہنے ہوئے کپڑوں کے علاوہ کچھ باقی نہ بچا، پولیس اہلکاروں نے خواتین سے زیور چھین لیا، گھروں میں کھڑے ٹریکٹروں اور موٹر سائیکلوں کا پٹرول اپنی گاڑیوں میں منتقل کرنے کے بعد ڈنڈوں سے تمام گاڑیوں کو توڑ دیا جس کے بعد پولیس نے گھروں میں آگ لگا دی، گھروں سے زیورات اور نقدی لوٹ کر پولیس نے آپس میں بانٹ لی۔

آگ کے نتیجے میں گاؤں کے گھروں میں کپاس اور دیگر سامان جل کر راکھ ہو گیا ، جس کی مالیت کروڑوں روپے تھی، گھروں میں لگی آگ دیکھ کر بعض خواتین خود پر ضبط نہ رکھ سکیں اور اپنے گھر پر لگی آگ کو بجھانے کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتی رہیں تاہم وہ اس میں بھی ناکام رہیں جس کی وجہ سے متعدد خواتین کے سر کے بال بھی جل گئے اور کچھ بے ہوش بھی ہو گئیں، اس دوران ایک خاتون نے ہوش میں آنے کے بعد کہا کہ میرے دو بچے آگ میں جھلس گئے ہیں۔

پولیس کے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں خواتین سمیت درجنوں افراد زخمی ہو گئے، جب کہ پولیس جاتے جاتے مختلف گاؤں سے 100 سے زائد بے قصور لوگوں کو بھی گرفتار کرکے ساتھ لے تھانے لے گئی۔ اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے گلو بٹوں کی غنڈہ گردی کے خلاف مروٹ میں احتجاج کیااور ٹائر جلا کر بہاولنگر سے بہاولپور روڈ بلاک کر دی۔ اہل علاقہ نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا کہ واقعے کا نوٹس لے کر ڈی پی او کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور پولیس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

واضح رہے کہ پولیس اور کسان اتحاد میں کافی عرصہ سے چپقلش چلی آ رہی تھی اور متعدہ دفعہ کی جھڑپوں میں درجنوں لوگ زخمی ہوتے رہے ہیں اور چند دن پہلے بھی اہل علاقہ نے پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا تھا

متعلقہ عنوان :

بہاولنگر میں شائع ہونے والی مزید خبریں