چترال میں رمضان کے مہینے میں بھی 20گھنٹے کی طویل ترین لائوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری، لوگ ٹھنڈے پانی وشربت بنانے کیلئے پہاڑ کی قدرتی برف خریدنے پر مجبور

منگل 30 مئی 2017 20:42

چترال(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 30 مئی2017ء) چترال کے پہاڑ اگرچہ یہاں کے عوام کے راستے میں رکاوٹ ضرور ہے کیونکہ سردیوں میں ان پہاڑوں پر شدید برف باری ہوتی ہے جو نہ صرف سردی کی شدت میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ راستے بھی بند کرتا ہے ، مگر گرمیوں میں ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی ہوئی اور برفانی تودے سرکنے کی وجہ سے قدرتی برف نیچے آتی ہے،اس وقت چترال اور مضافات میں اٹھارہ سے بیس گھنٹوں تک بجلی کا طویل ترین لائوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے لوگ فریج، ریفریجریٹر، ڈیپ فریزر وغیرہ میں نہ تو پانی ٹھنڈا کرسکتے ہیں نہ برف بنا سکتے ہیں تاکہ افطاری کے وقت اس ٹھنڈے پانی سے شربت بنا کر اپنا پیاس بجھائے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ لواری ٹاپ اور تریچ میر کے پہاڑوں سے قدرتی برف لاکر بیچتے ہیں،تاہم چند گاہکوں نے ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے شکایت کی کہ یہ گاڑی مالکان اس قدرتی برف کو بھی نہایت مہنگے دام فروخت کرتے ہیں جس پر نہ ٹیکس دینا پڑتا ہے نہ خریدنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

اسلم نامی ایک شحص کا کہنا ہے کہ پہلے وہ پانچ کلو برف پچاس روپے پر خریدتا تھا اب وہ سو روپے کی ملتی ہے ،جب گاڑی مالک سے پوچھا گیا کہ وہ اس قدرت کے انمول تحفے کو کیوں اتنا مہنگا بیچ رہا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ وہ صبح سویرے تریچ میر سے روانہ ہوتا ہے اور چھ سات گھنٹوں میں یہاں پہنچتا ہے جس پر گاڑی کا تیل کا بہت خرچہ آتا ہے،بجلی کی بحالی کیلئے پاور کمیٹی ضلع ناظم ، رکن صوبائی اسمبلی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کا ٹائون ہال میں ایک اجلاس بھی ہوا جس میں انہوں نے سرحد رورل سپورٹ پروگرام پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کا دو میگا واٹ بجلی گھر بری طرح ناکام ہوا ہے اور ان کا وعدہ تھا کہ وہ نو ماہ میں لوگوں کو بجلی فراہم کرے گا مگر تیسرا سال جاری ہے ابھی تک لوگ بجلی سے محروم ہیں۔

SRSP کے ڈسٹرکٹ پروگرام منیجر طارق احمد نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بجلی گھر پورا دو میگا واٹ بجلی فراہم کرتا ہے مگر اس کی تقسیم یعنی ڈسٹری بیوشن واپڈا (پیسکو لائن سٹاف ) کا کام ہے جس میں وہ ناکام ہوئے ہیں اور لوگوں کو صحیح طریقے سے بجلی نہیں ملتی۔تاہم چند منتحب ناظمین اور کونسلر نے بتایا کہ ایس آر ایس پی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اتوار کے روز سہ پہر چار بجے ان کی بجلی فراہم کی جائے گی مگر ابھی تک وہ بجلی نہیں آئی اور لوگ بجلی سے محروم ہے دوسری طرف نیشنل گریڈ اسٹیشن سے آنے والی بجلی بھی نہایت سست رفتاری سے آتی ہے ایک طرف اگر اس کی وولٹیج کم ہے تو دوسری طرف وہ بھی بیس گھنٹے لائڈ شیڈنگ کرکے لوگوں کی زندگی اجرین بنا رکھا ہے ۔

سینگور کے مقام پر چھوٹا سا بجلی گھر جو صرف چھ سو کے وی بجلی فراہم کرتی ہے یہ بجلی گھر جو 1975 میں بنا تھا مگر اس کے بعد اس کی ترقی اور مرمت پر کوئی کام نہیں ہوا ہے وہ بھی حراب ہے اور بار بار ٹرپ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس بجلی گھر سے مسفید ہونے والوں کا دن رات آرام حرام ہوچکا ہے لوگ نہ دن کو سو سکتے ہیں نہ رات کو کیونکہ بجلی گھر کا مشین ذرا سا گرم ہوکر ٹرپ کرجاتا ہے یعنی بند ہوجاتا ہیط ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری اور ان کے وزیر اعظم جو بعد میں نا اہل ہوا سید یوسف رضا گیلانی نے جو غیر ملکی پائور کمپنی کو اپنی کمیشن کے حاطر حطیر رقم ایڈوانس میں یعنی پیشگی ادا کیا تھا جس نے ایک میگا واٹ بجلی بھی نہیں پیدا کی اور اللہ بھلا کرے چیف جسٹس افتحار چوہدری کا جس نے از خود نوٹس لیکر اس کمپنی سے وہ رقم واپس قومی خزانہ میں جمع کروایا مگر وہاں انکشاف ہوا ہے کہ صدر اور وزیر اعظم نے ان سے کمیشن لیا تھا اگر اس رقم سے وہ چترال میں پن بجلی گھر تعمیر کرواتے تو یہاں دس سے بیس ہزار میگا واٹ بجلی بالکل مفت میں پیدا ہوسکتی ہے جس سے نہ صرف پورے ملک کا بجلی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا بلکہ ہم پڑوسی ممالک کو بھی بجلی دیکر اربوں روپے کی رائلٹی لے سکتے تھے مگر انہوںنے ایسا نہیں کیا اور عوام بجلی نہ ہونے کا رونا رورہے ہیں جس میں کل ملاکنڈ میں ایک شحص بجلی کی لائوڈ شیڈنگ کے حلاف جلوس میں جاں بحق اور دوسر ازحمی بھی ہوا ہے۔

تاہم چترال پر اللہ تعالیٰ کا حصوصی مہربانی ہے کہ گرمیو کی موسم میں وہ فریج کی برف کی بجائے قدرتی برف استعمال کرکے اپنا پیاس بجھا تے ہیں۔ اور یہ قدرتی برف کسی نعمت سے کم نہیں۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں