چترال، سڑک حادثے میں زحمی ہونیوالے علماء کو ہسپتال میں طبی سہولیات کے فقدان سے شدید مشکلات کا سامنا، مقامی عوام

جمعہ 7 جولائی 2017 18:55

چترال(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 جولائی2017ء) چترال کے بالائی علاقے استارو (شوچ) کے قریب ایک گاڑی حادثے کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں دو علماء جاں بحق جبکہ دو علماء شدید زحمی ہوئے، چترال پولیس کے مطابق یہ گاڑی موردیر کے مقام پر تبلیغی اجتماع کیلئے جانے والے ایک جماعت جن میں سب چترال کے چوٹی کے علماء کرام شامل تھے حادثے کا شکار ہوا جس میں مولانا ذاکرا للہ سکنہ بکر آباد جو قاری ذاکر اللہ کے نام سے مشہور ہے مولانا صہیب احمد خان سکنہ تورکہو موقع پر جاں بحق ہوئے جبکہ مولانا محمد یوسف سکنہ آیون اور مولانا حفیظ الرحمان سکنہ چمرکن شدید زحمی ہوئے۔

ایک مقامی صحافی محکم الدین کا کہنا ہے کہ حادثہ دن کے وقت پیش آیا جس پر زحمیوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال بونی لئے گئے تاکہ ان زحمیوں کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پہنچایا جائے مگر بدقسمتی سے ایمبولنس میں تیل نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ انہوںنے فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اسراراللہ کے نوٹس میں لایا جس پر ایمبولنس میں اپنے جیب سے تیل ڈالا گیا مگر پتہ چلا کہ ایمبولنس حراب کھڑی ہے ،بعد میں ان زحمیوں کو آغا خان ہیلتھ سروس کے ایمبولنس میں چترال ہسپتال پہنچائے گئے مگر یہ ہسپتال کم اور مسائلستان زیادہ لگتا ہے، ہسپتال میں نہ بجلی تھی نہ ایم آر آئی مشین جبکہ سی ٹی سکین کا تو تصور بھی نہں کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

ہسپتال میں اے این پی کے حکومت میں 75 لاکھ روپے کی لاگت سے ڈیزل جنریٹر خریدا گیا تھا مگر اس جنریٹر سے بھی ایمرجنسی اور آئی سی یو یونٹ میں لگے ہوئے پنکھے نہیں چل سکتے تھے ۔ زحمیوں کے تیمار داروں اور رشتہ داروں نے بازار سے اپنے خرچ پر سولر اور بیٹر ی سے چلنے والے پنکھے خرید کر لائے تاکہ زحمیوں کو شدید گرمی سے بچایا جاسکے۔چترال کے معروف شحصیت قاری جمال عبد الناصر نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں ایمرجنسی یونٹ کے سامنے احتجاج کیا جس میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ حادثہ دن کے گیارہ بجے پیش آیا تھا مگر انصاف اور صحت کے ایمرجنسی کے دعویدار حکومت میں سرکاری ہسپتال کے ایمبولنس میں تیل نہیں تھی جبکہ اپنے جیب سے تیل ڈالا گیا تو پتہ چلا کہ ایمبولنس ہی حراب ہے جبکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں نہ بجلی ہے نہ مشنیری جس کے ذریعے ان زحمیوں کا فوری علاج ہوسکے۔ انہوںنے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا حادثہ پیش آیا جس میں چترال کے چوٹی کے علمائے کرام جاں بحق اور زحمی ہوئے مگر ہسپتال میں نہ ڈی ایچ او موجود ہے نہ ایم ایس اور نہ ہی کوئی ایم پی اے یا ایم این اے نے ہسپتال کا دورہ کیا۔

انہوںنے کہا کہ ہم نے بارہا انتظامیہ کے نوٹس میں لایا مگر ابھی تک جنریٹر ہی نہیں چلایا گیا ۔ انہوںنے صوبائی حکومت کی بھی مذمت کی جو صحت کا انصاف اور ہیلتھ ایمرجنسی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ان کی صحت کا انصاف کا یہ حالت ہے کہ ہسپتال میں نہ بجلی ہے نہ ایمبولنس نہ سی ٹی سکین مشین ہے نہ ایم آر آئی جبکہ ان کے تما تر دعووں کے باوجوداتنے بڑے ہسپتال میں ابھی تک کوئی نیور و سرجن، آرتھوپیڈک سپیشلسٹ اور دیگر سپیشلسٹ ڈاکٹرز موجود ہیں اس موقع پر عوام نے مطالبہ کیا کہ چترال کے کوٹہ پر میڈیکل کالجوں میں داحلہ لینے والے جتنے ڈاکٹر چترال کا ڈومیسائل استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر بن جاتے ہیں ان کو فوری طو رپر چترال کو ٹرانسفر کرے تاکہ کم از کم دو سال تک چترال کے غریب عوام کا علاج کرسکے۔

ایمرجنسی یونٹ کے انچارج ڈاکٹر آصف علی شاہ نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اس ہسپتال میں MRI, سی ٹی سکین وغیرہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز حضرات بھی ہیڈ انجری اور کمر ٹوٹنے کی صورت میں زحمیوں کی صحیح تشحیص نہیں کرسکتے۔ایک تیمار دار مفتی مصباح نے بھی شکایت کہ یہ چترال کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اس کا یہ حالت ہے کہ اگر دو زحمیوں کو لایا جائے تو ان کو بروقت نہیں سنبھالا جاسکتا کیونکہ یہاں بجلی نہیں ہے اور دیگر مشنیر بھی نہیں ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر عبد الاکرم فوری طور پر ہسپتال پہنچ گئے تھے اور ان تمام تر کاروائی کا خود جائزہ لے رہے تھے تاہم اس موقع پر اے سی چترال نے کہا کہ عوام بھی تعاون نہیں کرتے اور بہت بڑی تعداد میں عوام وارڈ کے اندر گھس کر ڈاکٹروں کو کام کرنے نہیں دیتے۔ڈاکٹروں کے مطابق مولانا حفیظ الرحمان کی حالت تشویش ناک ہے جس کیلئے ان کے لواحقین حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ائیر ایمبولنس کے ذریعے ان کو پشاور ہسپتال منتقل کیا جائے جہاں نیوروسرجن ان کا علاج کرسکے۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں