سیلاب سے تباہ ہونیوالاریشن پن بجلی گھر دو سال گزرنے کے باوجود دوبارہ تعمیر نہ ہوسکا، ہزاروں لوگ بجلی سے تاحال محروم

ہفتہ 16 ستمبر 2017 19:10

چترال(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 ستمبر2017ء) چترال کے بالائی علاقے کو بجلی فراہم کرنی4.2 میگا واٹ کا والا واحد پن بجلی گھر جو ریشن کے مقام پر جولائی 2015 میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا تھا وہ دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی دوبارہ تعمیر نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں دو لاکھ سے زیادہ آبادی بجلی سے محروم ہیں، علاقے کے عوام نے بہت لمبے عرصے کیلئے مسلسل دھرنا بھی دیا جس پر صوبائی حکومت نے ان کو ماموں بناکر یقین دہانی کرائی کہ وہ اس بجلی گھر کیلئے ٹنڈ کر رہے ہیں مگر انہوںنے صرف کرایے کا ڈیزل جنریٹر لایا جو کافی عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک کام نہیں کررہا ہے،ویلیج ناظم عبد القیوم شاہ ، رضا شاہ، رکن تحصیل کونسل سعادت الرحمان ، صفدر علی اکاش ، موری لشٹ، موری بالا، موری پائین ، برنس، کوغذی وغیرہ کے بڑی تعداد میں عوام نے ایک بار پھر ریشن پن بجلی گھر کا دورہ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

(جاری ہے)

منتخبنمائندوں، کونسلروں، ناظمین اور صارفین نے شکایت کی کہ 2015 میں ریشن کے مقام پر 4.2 میگا واٹ کا پن بجلی گھر محکمے کی غفلت کی وجہ سے سیلاب برد ہوا کیونکہ ہم نے بارہا ان کو درخواست کی کہ بجلی گھر کے قریب سال 2010 میں آنے والا بڑا پتھر پڑا ہے اسے ہٹایا جائے کیونکہ اس نے پانی کا راستہ روکا ہوا تھا اور دوبارہ سیلاب کی صورت میں سیلاب کا پانی بجلی گھر کو بہا کر لے جائے گا مگر انہوں نے ایک بھی نہیں سنی اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔

سیلاب آیا راستہ بند تھا اور سیلاب کا پانی بجلی گھر کے اوپر چڑھ کر اسے تباہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چھ ماہ قبل ڈیزل جنریٹر کرائے پر لائے گئے ہیں مگر ابھی تک اس کی بجلی بھی فراہم نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں جب محکمہ پختونخواہ انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (صوبائی محکمہ برقیات) کے اسسٹنٹ ریذیڈنٹ انجینئرمحمد وکیل کا کہنا ہے کہ اس بجلی گھر کیلئے پہلے کنسلٹنٹ کا انتخاب ہوگا اس کے بعد ٹنڈر ہوکر اس پر کام شروع ہوگا مگر ابھی تک کنسلٹنٹ کا انتحاب نہیں ہوا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کے معلومات کے مطابق اس بجلی گھر کیلئے اسی کروڑ روپے کا فنڈ فراہم کی جارہی ہے مگر یہ فنڈ کب فراہم ہوگی یہ اس کو پتہ نہیں۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ بجلی گھر کی حرابی کی وجہ سے محکمے کو کتنا مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ جب یہ بجلی گھر کام کر رہا تھا کہ اس وقت ماہوار 45 سے 50 لاکھ آمدنی آتی تھی کیونکہ یہاں کے لوگ سو فیصد بجلی کا بل جمع کرتے ہیں مگر اب بجلی گھر کی حرابی کی وجہ سے محکمے کو بھی پندرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اگر بجلی گھر بروقت بنایا جاتا تو لوگوں کو بجلی فراہم ہوتی اور محکمے کو ماہوار پچاس لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیزل جنریٹر کا ٹھیکہ بھی دیا گیا ہے مگر ٹھیکدار بروقت کام نہیں کرتا۔ جب ٹھیکدار کے نمائندے مزمل سے پوچھا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ٹھیکہ تین چار ٹھیکداروں میں تقسیم ہوا ہے اور کوئی بھی صحیح طرح کام نہیں کرتا وہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے کام میں غیر معمولی تاخیر پیدا ہوا ہے اور یہاں کے عوام بجلی سے محروم ہیں۔

متاثرین نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت محکمہ برقیات فوری طور پر ریشن پن بجلی گھر دوبارہ تعمیر کرے اگر ان کے پاس فنڈ نہیں ہو تو عمران خان دھرنوں کی بجائے وفاقی حکومت سے فنڈ مانگ کر ہمارا دیرینہ مسئلہ حل کرے۔ کیونکہ اس بجلی گھر کی تباہ ہونے کے بعد ایک طرف دو لاکھ عوام بجلی سے محروم ہیں تو دوسری طرف محکمے کو بھی سالانہ چھ کروڑ روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر یہ بجلی گھر بن گئی تو بجلی کی بل کی مد میں ماہوار پچاس لاکھ روپے کا بل جمع ہوتا ہے متاثرین نے متنبہ کیا ہے کہ ہم نے پہلے بھی دھرنا دیا تھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔اب کے بار ہم پر تشدد اختجاج کریں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ اور حکومت پر ہوگی۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں