واپڈا مین ٹرانسمیشن لائن کیلئے 3600 درخت کاٹے جارہے ہیں، متاثرین کا چیف جسٹس پاکستان سے نوٹس لینے کی اپیل

پیر 27 نومبر 2017 18:57

چترال(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 نومبر2017ء) چترال کے مضافاتی علاقے بروز میں محکمہ واپڈا ٹرانسمیشن لائن کیلئے تین ہزار سے زیادہ کامیاب درختوں کو کاٹ رہے ہیں ان درختوں میں اخروٹ، ناشپاتی اور شاہ بلوط کے نایاب قسم کے درخت بھی شامل ہیں، صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے نصرت آزاد، سہراب خان، انجینئر فخر اعظم وغیرہ نے بتایا کہ واپڈا کی مین ٹرانسمیشن لائن کے نیچے تین حاندانوں کی ذاتی جنگلات اور ذرعی زمین بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔

انہوںنے کہا کہ متاثرین نے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا جس نے ان کی حق میں فیصلہ دیا تھا مگر اس پر نہ تو ضلعی انتظامیہ عمل درآمد کرتی ہے نہ واپڈا حکام۔انہوںنے کہا کہ سروے ٹیم نے صرف ٹھیکدار کو فائدہ پہنچانے کیلئے بنجر زمین ، دریا کا کنارا اور پہاڑی علاقوں کو چھوڑ کر جان بوجھ کر ذرعی زمین کے اوپر سے لائن گزار رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس متبادل کے طور پر بنجر زمین بھی پڑی ہے اور دریا کے کنارے کافی غیر آباد اراضی بھی موجود ہے،ایک طرف صوبائی حکومت دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ صوبے میں اربوں کی تعداد میں نئے پودے لگار ہے ہیں جبکہ دوسری طرف بروز اور چترال کے دیگر مقامات پر تیار درخت کاٹے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ صرف بروز ہی میں 3600 درخت کاٹے جارہے ہیں جن میں شاہ بلوط جیسے سدا بہار نایاب قسم کے درختوں کے علاوہ اخروٹ، ناشپاتی ، سیب اور دیگر پھلدار درخت بھی موجود ہیں،اس سلسلے میں جب چیف کنزرویٹر محکمہ جنگلات مشتاق احمد، ڈویژنل فارسٹ آفیسر شوکت فیاض سے رابطہ کیا گیا تو انہوںنے تصدیق کرلی کہ صوبائی حکومت نے اخروٹ کی درخت کاٹنے پر پابندی لگائی ہے اور جب کسی کی ذاتی زمین بھی اخروٹ کا درخت کھڑا ہو اور اس میں کوئی بیماری موجود ہو تو اس کے کاٹنے سے پہلے ڈائریکٹر ذراعت کو تحریری درخواست دینا پڑے گا اس کے بعد ڈویژنل فارسٹ آفیسر اس کی خود ہی معائنہ کرکے تصدیق کرے گا کہ واقعی میں وہ درخت بوسیدہ حالت میں ہے یا حراب ہے تو پھر این او سی جاری کرے گا اس کے بعد اس درخت کو کاٹا جاسکتا ہے،ان کے کہنے پر سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر محمد یوسف فوری طور پر متاثرہ جگہ پہنچ گئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں سینکڑوں سال پرانے شاہ بلوط کے نایاب درختوں کے علاوہ اخروٹ کے بھی تین سو درخت کاٹے جارہے ہیں، محمد یوسف نے بیان کہ بطور فارسٹ آفیسر ان کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ یہاں کافی تیار اور کامیاب درخت کاٹے جارہے ہیں مگر چونکہ یہ واپڈا کی لائن کیلئے کاٹے جارہے ہیں جس میں محکمہ جنگلات کچھ بھی نہیں کرسکتا۔

گولین گول پراجیکٹ واپڈا کے ریذیڈنٹ انجنیر سردار بہادر سے بھی اس سلسلے میں واپڈا کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے اس سلسلے میں کوئی رائے دینے سے معذرت کرلی تاہم انہوں نے اف دی ریکارڈ یہ کہہ کر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ خود بھی ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ان درختوں کو اس طرح کاٹتے ہوئے دیکھ کر وہ صرف افسوس کرسکتا ہے مگر وہ واپڈا کی پالیسی میں کوئی ردوبدل نہیں کرسکتا ہے۔

قانونی ماہرین سے بھی رائے لی گئی جن کا کہنا تھا کہ واپڈا ایکٹ کے تحت عام لوگوں کا کم سے کم نقصان ہونا چاہئے اور ان کو معاوضہ بھی دینا چاہئے۔ناصر آزاد، سردار نعیم نے بتایا کہ ان کے خاندان نے حاصل خان ولد توکل خان کو مفت زمین دی تھی تاکہ وہ اس میں گھر بناسکے جو نہایت غریب اور نادار شحص ہے مگر واپڈا حکام نے اس کو بھی نوٹس جاری کیا ہے کہ اپنے گھر کے چھت سے ٹین کے چادر ہٹا کر اسے آر سی سی یعنی کنکریٹ سے بنادے جبکہ اس کی بس سے باہر ہے۔

متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے تاکہ ہزاروں کی تعداد میں ان کی درختوں کو بے دریغی سے کاٹنے سے روکا جائے اور ، وزیر اعظم پاکستان اور واپڈا کی اعلے ٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کی جائے کہ ایک ہی شخص کنسلٹنٹ اور ٹھیکدار بھی خود ہے اور ان کو فائدہ پہنچانے کیلئے لوگوں کی کروڑوں روپے مالیت کی زرعی زمین اور تیار درختوں کو کاٹے جارہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر ان کے اوپر ہونے والے اس ظلم کو نہیں روکا گیا تو وہ راست قدم اٹھانے اور پر تشدد احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے جس کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ پر ہوگی۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں