کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار ’’پھور ‘‘ا ختتام پذیر‘ 30جوڑے شادی کے بندھن میں بندھ گئی

ہفتہ 15 اکتوبر 2016 18:54

چترال (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 اکتوبر2016ء) کیلاش قبیلے کے لوگوں نے وادی بریر میں اپنا سالانہ مذہبی تہوار پھور نہایت جوش و خروش سے منایا۔ اس تہوار منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کیلاش قبیلے کے لوگ اپنا پھل یعنی انگور اور اخروٹ اتار کر اسے موسم سرما کیلئے سٹاک کرتے ہیں اس سے پہلے ان کو میوہ اتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اگر کسی نے چوری چھپے یہ میوہ اتار ا تو اسے جرمانہ کیا جاتا ہے۔

اس تہوار کے دوران کیلاش قبیلے کے بزرگ لوگ ان لڑکیوں کے سروں پر پھولو سے ڈھکی ہوئی ٹوپی رکھتے ہیں جو سن بلوغ کو پہنچ جاتے ہیں یا بلوغت کے قریب ہوتے ہیں اور یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ یہ لڑکیاں اب جوان ہوئے ہیں یا ہونے والے ہیں جو حصوصی ایام میں گھر کے اندر نہیں رہ سکتی اور انہیں بشالینی کو منتقل کئے جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس تہوار کے دوران کیلاش مرد جوان٬ بوڑھے ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ کیلاش خواتین اور مرد ڈھولک کی تھاپ پر روایتی رقص پیش کرتی ہیں بعض عورتیں صرف تالیاں بجاتی ہیں اور مرد ناچتے ہیں۔

اس تہوار میں حصہ لینے والی ایک خاتون جو تھک جانے کے بعد سستانے کی عرض سے زمین پر بیٹھی تھی وہ بیٹھے بیٹھے گانا گارہی تھی اور ساتھی ہی زمین پر بیٹھے ہوئے دوسری خواتین نے بھی اس میں حصہ لیا۔اس تہوار کو دیکھنے کیلئے ملک بھر سے سیاح وادی بریر کا رح کرتے ہیں لاہور سے آیا ہوا ایک سیاح کا کہنا ہے کہ اسے یہاں آکر بڑی خوشی ہوئی اور بہت لطف اندوز ہوا۔

خراب سڑکوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق نائب ناظم خورشید کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا اس وادی کی سڑکوں کی تعمیر کے اعلان کے بعد اب وہ پر امید ہیں کہ اس سے نہ صرف وادی کے لوگوں کو بلکہ سیاحوں کو بھی آنے جانے میں آسانی ہوگی ان کا کہنا ہے کہ ا س حوبصورت اور پر امن خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی خراب سڑکیں ہیں۔کیلاش قبیلے سے اقلیتی رکن تحصیل کونسل نزگئی کا کہنا ہے کہ وادی بریر میں خواتین کیلئے محصوص ایام میں قیام کرنے کی جگہہ بشالینی کی شدید کمی ہے اور خواتین ان محصوص ایام میں یا زچگی کے دوران بہت دور جاکر بشالینی میں قیام کرتی ہیں۔

میٹرک کی طالبہ جمشینہ بی بی کا کہنا ہے کہ اس تہوار میں بڑے عمر کے لڑکیوں کے سروں پر ٹوپی رکھی جاتی ہے اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ لڑکیاں اب جوان ہیں اوریہ لوگ اپنا پھل اتار کر انہں موسم سرما کیلئے رکھتے ہیں۔جمشینہ نے کہا کہ وادی کیلاش کے لوگ سال میں چار تہوار مناتے ہیں جس میں جوان لڑکیاں اپنے دوستوں کے ساتھ بھاگ کر شادی کا اعلان بھی کرتی ہیں۔

انہوںنے وادی کی مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کیلئے ابھی تک کوئی زچہ بچہ مرکز تک نہیں ہے اور انہیں زچگی کے دوران چارپائی پر ڈال کر چترال یا دروش ہسپتال لے جانا پڑتا ہے جس میں اکثر وہ اپنی جانیں بھی گنوادیتی ہیں۔تہوار کے آحری دن شام کے قریب کیلاش قبیلے کے خواتین ہاتھوں میں پھول پکڑ کر ایک محصوص جگہہ سے آتی ہیں جن کی قیادت ایک ایسی کیلاش کرتی ہے جس نے چوغہ سے منہ چھپایا ہوا ہوتا ہے اور ان کی سربراہی میں خواتین کا یہ جلوس ایک محصوص راستے سے گزر کر ہاتھوں میں پھول ہلاتی ہیں اور گیت گاتے ہوئے اس جگہہ بڑھتی ہیں جہاں کیلاش خواتین و حضرات رقص کرتی ہیں جسے چرسو کہا جاتا ہے اور یہ خواتین جب وہاں پہنچ جاتی ہیں تو اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پھول ان لوگوں پر نچاور کرتی ہیں جو چرسو میں رقص کرتی ہیں۔

اس تہوار میں بزرگ خواتین بھی پھولوں سے سجی ہوئی ٹوپی سر پر رکھتی ہے اور بوڑھے جوان یکساں طور پر اس میں حصہ لیتے ہیں۔اس رنگارنگ تقریب اور کیلاش لوگوں کی خوبصورتی دیکھنے کیلئے ملک بھر سے سیاح اس وادی کا رح کرتے ہیں تاہم خراب سڑکوں کی وجہ سے اکثر سیاح اس کی شکایت بھی کرتے ہیں۔ اگر حکومت وادی کیلاش کے تینوں وادیوں (بمبوریت٬ بریر اور رمبور) پر توجہ دے یہاں مواصلاتی نظام بہتر کرے تو دنیا بھر سے سیاح یہاں کا رخ کرکے یہاں کے پر امن ماحول اور ان جنت نظیر وادیوں کی قدرتی حسن سے لطف ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی جو سال میں چار مہینے برف باری کے باعث ملک کے دیگر حصوں سے منقطع رہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں