ڈیرہ اسماعیل کی طالبہ آئینہ وسیم کا اپنے بزرگوں کے فن جندری یا ’’لیکر ورک ‘‘کو دنیا میں روشناس کرانے کا عہد

اتوار 13 اکتوبر 2019 18:00

ڈیرہ اسماعیل خان ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اکتوبر2019ء) لوہے کی قلم سے لکڑی پر رنگوں کی آمیزش کو کندہ کرنا نازک انگلیوں کا کام نہیں ہے لیکن ایک پسماندہ علاقے کی نوجوان لڑکی نے یہ چیلنج قبول کیا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان کی مٹی سے تعلق رکھنے والی آئینہ وسیم انٹرمیڈیٹ کی طالبہ ہیں لیکن وہ اپنے بزرگوں کے فن جندری یا ’’لیکر ورک ‘‘کو دنیا میں روشناس کرانے کا عہد کر چکی ہیں۔

آئنہ وسیم تعلیم کے ساتھ وہ اس فن میں جدت لا کر نت نئے ڈیزائن تیار کرتی ہیں اور اس کے لیے وہ کمپیوٹر سے مدد کے علاوہ مہندی کے ڈیزانز کو لکڑی پر اتارنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔اس خطے میں عام طور پر بیٹے فن کے وراث ہوتے ہیں لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بیٹی اپنے بزرگوں کے فن کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔

(جاری ہے)

استاد اشرف کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد وسیم اعوان نے یہ کام شروع کیا اور اب ان کی بیٹی آئینہ وسیم اس فن کو پوری دنیا میں متعارف کرانا چاہتی ہیں۔

اس خاندان کی یہ آٹھویں نسل ہے جو اس فن سے وابستہ ہے۔ اس خاندان کے افراد نے بتایا کہ ان کے ایک بزرگ کرم علی نے تاج محل کی تعمیر میں بھی حصہ لیا تھا اور اس کے بعد ان کے آباؤ اجداد نے جندری یا لیکر ورک کا کام شروع کیا تھا۔آئینہ وسیم کے دادا محمد اشرف کچھ عرصہ پہلے فوت ہو گئے تھے۔ محمد اشرف نے یہ فن اپنی بیٹی فرحت اور بیٹے محمد وسیم کو منتقل کیا اور اب محمد وسیم یہ فن اپنی اہلیہ اور بیٹی آئینہ وسیم کو منتقل کر رہے ہیں۔

ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں گلی کوچوں میں ماہرین لوہے کی قلم سے لکڑی پر ایسے نمونے تیار کرتے تھے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے۔آئینہ وسیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بچپن سے گھر میں یہی کام ہوتا دیکھتی آئی ہیں اور پھر اس کام میں ان کا دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک دلچسپ کام ہے اور اس میں نئے نئے آرٹ ڈیزائن تیار کرنے میں اچھا لگتا ہے اس لیے وہ کمپیوٹر سے مدد لیتی ہیں اور مہندی کے ڈیزائن بھی لکڑی پر کندہ کرتی ہوں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں آج یہ ایک ہی خاندان رہ گیا ہے جو اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ شہر کی تنگ گلیوں میں ایک چھوٹے سے مکان میں باپ ماں اور بیٹی صحن میں بیٹھے اس کام میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں لاہور میں منعقد ہونے والی ایک نمائش میں حصہ لینے کے لیے تیاری کر رہے ہیں ۔آیینہ وسیم کے والد محمد وسیم نے بتایا کہ ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی اشیاء مختلف ممالک کے سربراہاں اور اہم شخصیات کو تحفے میں دی جا چکی ہیں جبکہ ان کے والد کی بنی ہوئی بیشتر اشیاء دیگر ممالک کے حکمرانوں کو بھی بھیجی جا چکی ہیں ۔

آئینہ وسیم کا کہنا ہے کہ یہ فن ان کے چھوٹے سے گھر میں محدود ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ کاش کوئی ایسا ذریعہ بن جائے کہ دوسرے لوگ بھی یہ کام سیکھیں اور دیکھیں تاکہ اس سے ملک کو بھی فائدہ ہو اور لوگوں کو بھی فائدہ ہو۔انہوں نے حکومت اور بالخصوص مخیر حضرات سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے اس معدوم ہوتے فن کو دنیا میں روشناس کرانے میں ان کی مدد کریں تاکہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس تاریخی فن کو دنیا میں مزید روشناس کراکے علاقے اور ملک کا نام روشن کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس فن کو تاریخی ورثہ قرار دیتے ہوئے ان کی سرپرستی کرے تاکہ یہ فن مزید نکھر سکے۔

متعلقہ عنوان :

ڈیرہ اسماعیل خان میں شائع ہونے والی مزید خبریں