)ڈیرہ ،چند صحافی نما لوگ گومل یونیورسٹی کے خلاف جھوٹی خبروں کی اشاعت کرکے مادر علمی کی ساکھ کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، یونیورسٹی انتظامیہ

تمام سول سوسائٹی ، تاجر برادری ، صحافیوں سے گزارش ہے ان جھوٹی خبروں اور پوسٹوں پر کان نہ دھریں،

پیر 14 اکتوبر 2019 19:07

-&ڈیرہ اسماعیل خان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 اکتوبر2019ء) چند صحافی نما لوگ گومل یونیورسٹی کے خلاف جھوٹ پر مبنی خبروں کی اشاعت کرکے مادر علمی کی ساکھ کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔اسی صحافی نما ٹولے نے کچھ دن پہلے ایک شکایات بھی درج کرائی جس میں ان کو اشتہار نہ ملنے کا ذکر ہے اس پر یہ خفا ہیں اور اپنے اشتہارات کے ملنے ، نہ ملنے یا کم ملنے کی پاداش میںان لوگوںکے ساتھ مل گئے ہیں جو گومل یونیورسٹی میں کرپشن میں غیر قانونی طریقے سے بھرتی ہونیوالے، مالی کرپشن، جنسی ہراساں سمیت دیگر کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جن کو یونیورسٹی نے نوکری سے نکالا ہے وہ بھی ان کا حصہ ہیں۔

لہٰذا یونیورسٹی انتظامیہ تمام سول سوسائٹی ، تاجر برادری ، صحافیوں سے گزارش کرتی ہے کہ ان جھوٹ پر خبروں اور پوسٹوں پر کان نہ دھریں کیونکہ اگر یونیورسٹی کو ٹھیک کیا جارہا ہے اورجنسی ہراساں کیسوں میں ملوث افراد ،غلط طریقے سے بھرتی ہونیوالے ، کرپشن میں ملوث افراد کو نکالا جا رہا ہے تو ان کو بچانے کیلئے کچھ صحافی نما لوگ تھوڑی سے مراعات کیلئے ان کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور یہ صحافی نما لوگ جن کو پچھلے ادوار میںمراعات دی جاتی تھیں کی مراعات بند ہوگئی ہیں جس پر وہ چیخ رہے ہیں اور کچھ لوگ جو اپنے بیویوں، بیٹوں اور بیٹیوں کو غلط طریقے سے پاس کروانے میں ملوث ہیں جب ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو وہ لوگ اب مقتدر قوتوں کو درخواست کررہے ہیں اور صحافیوں کو بھی مراعات دیکر جھوٹی جھوٹی خبریں لگوا رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

گومل یونیورسٹی میں غیر قانونی طریقے سے بھرتی ہونیوالے، مالی کرپشن، جنسی ہراساں سمیت دیگر کارروائیوں میں ملوث چند شر پسند عناصر جن میں شاہد کمال ٹیپو، جبار تنویراور دیگر جن کے خلاف انکوائریاں جاری ہیں اور آخری مراحل میں ہے یہ چند لوگ آئے روز عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یونیورسٹی انتظامیہ اور اس خطے کی قدیم درسگاہ پر وہی پرانی باتیں کرکے اس کی ساکھ کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ مختلف فورم پر جاتے ہیں اور گومل یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ غیر قانونی ، غیر اخلاقی، غیر اصولی پریشر بھی ڈال رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مقتد ر قوتوں کا نام لے کر لوگوں کو دھمکا بھی رہے ہیں اور ڈرا بھی رہے ہیں ۔گومل یونیورسٹی سنڈیکٹ اور سینٹ دو ایسے مجاز اتھارٹی ہیں جو یونیورسٹی میں تادیبی کارروائی کا فیصلہ رکھتی ہے کوئی بھی کمیٹی ریکامنڈیشن تو کر سکتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں مجاز اتھارٹی ان کو من و عن تسلیم کر لیں ۔

ان کا ماننا اس پر ایکشن لینا یہ سنڈیکیٹ کا کام ہے ۔ گومل یونیورسٹی سے نکالے گئے ملازمین کے کیسوں کو سنڈیکیٹ نے تفصیل سے دیکھا اور پھر اس میں جو قابل عمل چیزیں تھیں ان پر عمل کیا گیا۔ گومل یونیورسٹی کی 98ویں سنڈیکیٹ تاریخ کی سب سے اہم سنڈیکیٹ اس لحاظ سے تھی کہ اس میں تینوں سیکرٹری ،تمام ممبرزبشمول ایک معزز جج صاحب موجود تھے اور اس میٹنگ میں ہر ایک آئٹم پر تفصیل سے بات ہوئی اور آج تک کسی بھی آئٹم پر کسی بھی ممبر چاہئے وہ سیکرٹری ہی کیوں نہ ہو کوئی بھی آبزرویشن نہیں آئی اور پوری سنڈیکیٹ تمام فیصلوں پر متفق ہے چاہے وہ شاہد کمال ٹیپوکو نوکری سے نکالنے کے بارے میں ہو، چاہی17 ،18،19گریڈ کے غیر قانونی لیکچروں کی بھرتی پر ہو،چاہے بختیار خٹک کو نوکری سے نکالنے کی بات ہو یا جبار تنویر جو کہ اینٹی کرپشن کے کیسوں میں ملوث تھے، ان کے کیسوں کی انڈورسمنٹ تھی۔

یہ تمام فیصلے ان تمام لوگوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کئے مگر وہاں بھی ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ ان لوگوں نے کلاس تھری اور کلاس فور ملازمین یونین کے چند عہدیداران کو بھی اپنے مزموم مقاصد کیلئے استعمال کیاان کو سبز باغ دکھائے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ان کو بھڑکا یا اور ان کی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب جب ان کلاس تھری اور کلاس فور ملازمین اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے اور یہ خود بھی نوکریاں سے فارغ ہو گئے اور کچھ نے منہ پھیر لیا تو یہ بیچارے ان کے خلاف پریس کانفرنس کرنے چلے گئے اور ان کا خوفناک چہرہ عوام کو دکھا دیا جس پر انہوں نے یہ الزام بھی گومل یونیورسٹی پر لگا دیا۔

کیونکہ یہ لوگ خود پاک صاف نیک بن کر ہمدردی لینا چاہتے تھے مگر اب یہ سب کچھ ہر شہری کو عیاں ہے کہ یہ لوگ دودھ سے دھلے نہیں ہیں ۔ یونیورسٹی کے بارے میں جو بھی معلومات گومل وائس چانسلر کے وائس چانسلر یایونیورسٹی انتظامیہ بیان کرتی ہے ۔ وہ کوئی ڈھکی چھپی چیزیں نہیں ہو سکتی اگر یونیورسٹی کہتی ہے کہ یونیورسٹی میں 12ہزار طلباء یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں تو ان کی رجسٹریشن بھی ہے ، موجودگی بھی ہے اور یہ طلباء فیسیں بھی جمع کرتے ہیں۔

جہاں تک پنشنر کی بات ہے تو یہ مسئلہ صرف گومل یونیورسٹی کا نہیں ہے یہ پورے صوبہ خیبرپختونخوا سمیت مرکزی اور دیگر صوبائی حکومتوں کا مسئلہ ہے اور انہوں نے اسی پنشن کو مد نظر رکھتے ہوئے مدمت ملازمت کو 60سے بڑھا کر63سال کر دیا ہے۔ اس میں گومل یونیورسٹی کی موجودہ ایڈمنسٹریشن کا نہ کوئی قصور ہے اور نہ ہی کوئی عمل دخل ہے بلکہ ابھی تک گومل یونیورسٹی یہ ایڈمنسٹریشن 30کروڑ کی خطیر رقم روٹین کے بجٹ سے پنشنرز کو دے چکی ہے۔

یہ لوگ جو چیخ رہے ہیں اور چلا رہے ہیں وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اسی یونیورسٹی نے ان کو پالا پوسا ،اسی یونیورسٹی سے یہ تنخواہیں اور مراعات سالوں سالوں پر محیط یہ لوگ غیر قانونی طور پر مزے سے حاصل کرتے رہے مگر جب قانون نے اپنا راستہ لیا اور ان کے خلاف ایکشن ہوا تو یہ لوگ اس مادر علمی کو بدنام کرنے پر تل گئے اور یہ لوگ بار بار یونیورسٹی کی رینکنگ کی بات کرتے ہیں گو کے پچھلے چار سالوں سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی کی رینکنگ نہیں کی ہے ۔ جو رینکنگ چار سال پہلے ہوئی تھی وہی ہے ۔ ایک بات واضح ہونی چاہئے کہ جب بھی رینکنگ ہوئی گومل یونیورسٹی انشاء اللہ ٹاپ 10پوزیشنوں پر ہو گی۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں شائع ہونے والی مزید خبریں