قومی تحریک میں نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ، مستقبل میں کامیابی کیلئے اتحاد و اتفاق کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو باچا خان بابا کی سوچ و فکر اور عدم تشدد کے فلسفے کو اپنانا ہوگا

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین کا یوتھ کنونشن سے خطاب

منگل 2 مئی 2017 20:21

دیر بالا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 مئی2017ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ قومی تحریک میں نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور مستقبل میں کامیابی کیلئے اتحاد و اتفاق کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو باچا خان بابا کی سوچ و فکر اور عدم تشدد کے فلسفے کو اپنانا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے دیر بالا واڑی میں نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ایک بڑے یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اُنہوں نے دیر میں این وائی او کی منظم تنظیم سامنے آنے پر انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اُسے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ نوجوانوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، مستقبل ان کا ہے اور ہم ان سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کی منظم اندازمیں خدمت کریں گے۔

(جاری ہے)

اُنہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوان انتہائی خوش قسمت ہیں کہ اُنہیں موجودہ دور میں دُنیا کی تمام آسائشیں میسر ہیں، اُنہوں نے واضح کیاکہ نوجوانوں کی تنظیم آج کے دور کی نہیں بلکہ باچا خان بابانے 1928 اور 1929 میں اس کی ضرورت محسوس کی تھی اور اُس دور میں موجود واحد بڑی تعلیمی درسگاہ اسلامیہ کالج میں اس کی بنیاد رکھی جبکہ اُس زمانے میں ابتدائی طور پر 75 افراد اس تنظیم کے ممبر منتخب ہوئے۔

اُنہوں نے کہا کہ بہترین علم ، تجربہ ، جوش و جذبے اور ہوش کی بنیاد پر مستقبل میں کامیابی یقینی ہے۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کیلئے نوجوانوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جبکہ محبت کی سیاست سے بڑھ کر کوئی چیز پاکیزہ نہیں۔ اُنہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ مظلوم طبقات کیلئے کوششیں کریں اُن کی تعلیم ، علاج اور بنیاد حقوق کے حصول کیلئے ہمیشہ میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

اُنہوں نے کہا کہ باچا خان بابا نے انسانیت کی بنیاد پر خدمت اور سیاست کی اور یہ جامعہ نظام ہمیں اُن سے ورثے میں ملا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ نوجوان اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں کیونکہ موجودہ دور میں اس کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس ہونے لگی ہے جس کی بنیادی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کی ماضی میں بھی کئی مثالیں موجود ہیں تاہم حال ہی میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال خان شہید کا جو انسانیت سوز واقع پیش آیا وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک تعلیمی درسگاہ میں کیا گیا ہے جہاں تعلیم یافتہ طبقہ موجود ہے۔

اُنہوںنے کہا کہ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں کیونکہ ضیاء الحق دور سے لیکر آج تک اس کے خلاف صرف یکطرفہ کارروائی کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میانہ روی کامیابی کا زینہ ہے اور کسی ہجوم کو یہ حق حاصل نہیں کہ قانون ہاتھ میں لیکر کسی بے گناہ کو قتل کرے اور بعد میں اُس کی لاش کی بے حرمتی کی جائے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کا موقف واضح ہے جبکہ اسفندیار ولی خان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ جو بھی اس واقعہ میں ملوث ہے اُسے جلد از جلد عبرتناک سزا دی جائے چاہے وہ میرا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

میاں افتخار حسین نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ سی پیک کے اہم ایشو پر عمران خان اور نواز شریف کے درمیان مک مکا ہو چکا ہے اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پختونوں کے حقوق کا سودا کر کے اپنے لیڈر کیلئے وزارت عظمی تک پہنچنے کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ اپنے دورہ چین کے دوران وزیر اعلیٰ اپنے مقدمے سے ہی بے خبر تھے اور واپس آ کر اے این پی کے پرانے منصوبے اپنے نام کراتے ہوئے بغلیں بجاتے رہے،انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے مغربی روٹ کے حوالے سے ہمارے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا۔

اُنہوں نے کہا کہ نواز شریف اور کپتان کے درمیان صرف کرسی کے معاملے پر اختلاف ہے ، ایک کرسی بچانے اور دوسرا اُس پر قبضہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ چائنا پاک اکنامک کاریڈور میں کسی مشرقی یا مغربی روٹ کا تصور نہیں تھا اسے صرف پختونوں کے حقوق چھین کر متنازع بنایا گیا اور وزیر اعلیٰ نے اپنے لیڈر کو خوش کرنے کیلئے پختونوں کے حقوق پر سودے بازی کی۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ مغربی اکنامک کوریڈور پختونوں اور چھوٹے صوبوں کیلئے معاشی انقلاب ہے اور اپنے جائز حقوق کے حصول کی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میاں افتخار حسین نے کہا کہ مردم شماری کے حوالے سے ہمارے تحفظات کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا اور حکومت نے اس اہم ایشو پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے ، انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اہل خانہ کو مردم شماری کے عمل میں شامل نہیں کیا جا رہا ،انہوں نے کہا کہ اے این پی نے شروع دن سے اہم نکات کی جانب توجہ مبذول کرائی لیکن حکمران اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور مردم شماری کے تمام عمل کے دوران کچی پنسل کا استعمال جاری رہا ، انہوں نے کہا کہ باقی تمام صوبوں میں مردم شماری کے ہیڈ کوارٹر قائم کئے گئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا کو اس سے محروم رکھا گیا انہوں نے کہا کہ پختونوں کی حقیقی آبادی کم کرنے کا عمل جاری ہے ۔

متعلقہ عنوان :

دیر میں شائع ہونے والی مزید خبریں