ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے ورکنگ کیپیٹل کاتقریباً 155 ارب روپے کا بڑا حصہ ابھی تک ری فنڈنظام میں پھنسا ہوا ہے جوٹیکسٹائل سیکٹر کے اوسط منافع سے بھی زیادہ ہے،بنیادی خام مال کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ، مقامی سطح پر تیار کردہ خام مال کی خریداری پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ کے خاتمہ سے برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا،حکومت نے بر۱ٓمدی صنعت کو ریلیف دینے کیلئے فوری اقدامات نہ کئے تو اس صنعت کو اپنی موت ۱ٓپ مرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا، خرم مختار چیئرمین پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی میڈیا سے بات چیت

پیر 22 جولائی 2019 14:58

ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے ورکنگ کیپیٹل کاتقریباً 155 ارب روپے کا بڑا حصہ ابھی تک ری فنڈنظام میں پھنسا ہوا ہے جوٹیکسٹائل سیکٹر کے اوسط منافع سے بھی زیادہ ہے،بنیادی خام مال کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ، مقامی سطح پر تیار کردہ خام مال کی خریداری پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ کے خاتمہ سے برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا،حکومت نے بر۱ٓمدی صنعت کو ریلیف دینے کیلئے فوری اقدامات نہ کئے تو اس صنعت کو اپنی موت ۱ٓپ مرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا، خرم مختار چیئرمین پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی میڈیا سے بات چیت
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جولائی2019ء) پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین خرم مختار نے کہا ہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے ورکنگ کیپیٹل کاتقریباً 155 ارب روپے کا بڑا حصہ ابھی تک ری فنڈنظام میں پھنسا ہوا ہے جوٹیکسٹائل سیکٹر کے اوسط منافع سے بھی زیادہ ہے جبکہ بنیادی خام مال کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ، مقامی سطح پر تیار کردہ خام مال کی خریداری پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ کے خاتمہ سے برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیالہٰذا اگرحکومت نے بر۱ٓمدی صنعت کو ریلیف دینے کیلئے فوری اقدامات نہ کئے تو اس بر ۱ٓمدی صنعت کو اپنی موت ۱ٓپ مرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

پیر کے روز میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ریفنڈز کی عدم ادائیگی، ذرائع توانائی کی سپلائی پر سبسڈی کی عدم فراہمی، بنیادی خام مال کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ اور مقامی خام مال کی خریداری پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ کاخاتمہ ٹیکسٹائل انڈسٹری اور برآمدات پرمنفی اثرات مرتب کرے گااسلئے ملکی برآمدات میں قابل ذکر اضافہ کیلئے درپیش مسائل کے فوری حل کیلئے ترجیحی اقدامات ناگزیر ہیں۔

(جاری ہے)

زیرو ریٹنگ کے خاتمے اور نئے ٹیکس نظام کے نفاذ سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریفنڈز کی عدم ادائیگی کے باعث ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز پہلے ہی شدید مالی مسائل کا شکار ہیںجبکہ ذرائع توانائی کی سپلائی پر سبسڈی کے خاتمے ، کاٹن یارن اور ہائیڈروجن پرآکسائیڈ جیسے بنیادی خام مال کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ اور مقامی سطح پر تیار کردہ خام مال کی خریداری پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ کے خاتمے سے برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہونے سے برآمدی صنعت سنگین مسائل سے دوچار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ۱ٓر او1125کے خاتمہ سے پہلے اوسط جمع شدہ ان پٹ ٹیکس مجموعی برآمدات کا 1.75 فیصد تھا جو کہمذکورہ ایس ۱ٓر او کے خاتمہ کے بعد بڑھ کر 12.8 فیصد ہو جائے گا یوں خدشہ ہے کہ 180 دن میں ایکسپورٹرز کے لگ بھگ 424 ارب روپے ریفنڈنظام میں پھنس جائیں گے جس سے ایکسپورٹرز کے مالی مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ زیرو ریٹڈ سیکٹرز کیلئے سپیشل انرجی ٹیرف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018 ء میں برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی کیلئے زیرو ریٹڈ سیکٹرز کو گیس و بجلی سپلائی کیلئے سپیشل ٹیرف گیس 6.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور بجلی 7.5 سینٹ فی کلو واٹ آور دیا گیا تھا مگر مارچ2019 ء کے بعد سے سبسڈی نہ ملنے کے باعث سبسڈی کی مد میں مختص 4.5 ارب روپے کے فنڈز مالی سال کے اختتام پر واپس ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ سبسڈی کی عدم فراہمی کے باعث ٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت کو نارمل ریٹ پر گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے گیس و بجلی کی سپیشل ٹیرف کے تحت سپلائی کیلئے سبسڈی کی فوری فراہمی اور سپیشل ٹیرف کے نئے نوٹیفکیشن کے فوری اجراء کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ نئے ٹیکس نظام میں مینوفیکچررز کو مقامی سپلائیز پر ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ اسی مہینے مل جائے گی جبکہ برآمدی یونٹس کیلئے ایڈجسٹمنٹ کا دورانیہ 175 دن ہے جس سے مسائل جنم لیں گے لہٰذا انہوں نے برآمدی یونٹس کو انرجی پر سیلز ٹیکس سے استثناء کا مطالبہ کیا۔

خام مال پر ڈیوٹیز اور ٹیکسز کے نفاذ پر بات کرتے ہوئے پی ٹی ای اے کے چیئرمین نے ایس ۱ٓر او 747 کے تحت ایکسپورٹ اوری انٹڈ یونٹس رولز کے تحت کام کرنے والے برآمدی یونٹس سے مقامی مال کی خریداری پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ کے خاتمہ کو اینٹی ایکسپورٹ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں یہ ایک اہم رعایت تھی جسے ختم کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے ٹیکسٹائل مصنوعات کے بنیادی خام مال کاٹن یارن اور ہائیڈروجن پر آکسائیڈکی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ان اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں کہ یارن کی درآمد سے مقامی انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سال 2018 ء میں یارن کی درآمد 44,195 ٹن جبکہ یارن کا برآمدی حجم 479,366ٹن تھا۔

انہوں نے یارن کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ کو ڈیمانڈ اور سپلائی کو غیر مستحکم کرکے ذاتی فائدہ اٹھانے کی ایک کوشش قرار دیا۔سرمایہ کاری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گذشتہ ایک سال میں سبسڈائزڈ قرضوں کا حجم 41 فیصد سے کم ہوکر 27 فیصد رہ گیا ہے جس کے باعث ایکسپورٹرز بھاری شرح سود پر کمرشل لونز لینے پر مجبور ہیں اسلئے انہوں نے لانگ ٹرم فنانسنگ اور ایکسپورٹ ری فنانس کی سیلنگ بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ حالات میں ملکی معیشت کا استحکام انتہائی اہم ہے اور ٹیکسٹائل کی صنعت وہ اہم صنعت ہے جو ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے تاہم ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس اہم صنعت کے مسائل کے فوری حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔

فیصل آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں