”مسئلہ کشمیر پر حکومت کی پالیسی مدافعانہ ہے، بزدلانہ اور خوف پر مبنی ہے“: امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب محمد جاوید قصوری

صوبائی امیر جماعت اسلامی نے اپنی بات چیت میں مزید کہا کہ اگر آج ہم نے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ اپنائی تو یہ جنگ ہمیں مظفرآباد، سیالکوٹ، قصور اور لاہور میں لڑنی پڑے گی اور یہ تباہ کن اثرات لے کر آئے گی

Muhammad Irfan محمد عرفان پیر 23 ستمبر 2019 18:04

”مسئلہ کشمیر پر حکومت کی پالیسی مدافعانہ ہے، بزدلانہ اور خوف پر مبنی ہے“: امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب محمد جاوید قصوری
تاندلیانوالہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین،23 ستمبر 2019ء، نمائندہ خصوصی،سید مصعب غزنوی) محمد جاوید قصوری صاحب جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے امیر ہیں۔ اس سال جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے اراکین نے استصواب کے ذریعے جاوید قصوری صاحب کو اپنا امیر منتخب کیا، اور دو ماہ پہلے انہوں نے صوبائی امارت کا حلف اٹھایا۔ جماعت اسلامی 6 اکتوبر کو لاہور میں بہت بڑایکجہتی کشمیر مارچ کرنے جارہی ہے۔

اس حوالے سے نمائندہ اُردو پوائنٹ سید مصعب غزنوی سے محمد جاوید قصوری نے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے 5 اگست کو جو اقدام کیا دفعہ 370 اور 35A کے خاتمہ کے بعد، جس جارحیت کے ساتھ اس نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی۔ اور آج کم و بیش 47 روز ہونے کو ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے تو یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا۔

(جاری ہے)

اور ایک ظالمانہ، سفاکانہ اور انسانیت سوز داستانیں ہیں جو مقبوضہ کشمیر سے اس وقت آرہی ہیں، 80 لاکھ انسان ہیں جوکہ اس وقت 9 لاکھ ہندوستانی فوجی بھیڑیوں کی زد میں ہیں۔ اس صورتحال کے اوپر پاکستان میں کسی دینی اور سیاسی جماعت نے کوئی موثر آواز اٹھائی ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ اس میں پاکستانی سوسائٹی کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے متحرک کیا ہے، عام لوگوں کے ساتھ مل کر کشمیریوں کی تائید کیلئے ایک توانا آواز بلند کی گئی ہے۔

6 اکتوبر کے پروگرام سے ہم مال روڈ اسمبلی ہال سے لاکھوں لوگوں کے ہمراہ ایک توانا آواز کشمیریوں کی تائید و نصرت کیلئے بلند کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم کشمیریوں کو اس آواز کے ذریعے محبت کا، تائید کا اور نصرت کا پیغام دینا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف ہم مودی کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جس طرح اہل کشمیر تمہارے ظلم و سفاکیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں، اسی طرح ہم پاکستانی عوام بھی تمہارے مقابلے کیلئے اور اس ظلم و ستم کا حساب لینے کیلئے ہر طرح سے تیار ہیں۔

اور ایک پیغام ہم پاکستانی حکمرانوں کو اسلام آباد کو بھی دینا چاہتے ہیں، اور وہ پیغام یہ ہے کہ حکمرانوں کا کام احتجاج کرنا نہیں ہوتا بلکہ حکمرانوں کا کام اقدام کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ حکومت نے اب تک بس طفل تسلیاں دی ہیں، احتجاج کیا ہے اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی احسن اقدام نہیں کیا۔ اور اس دن عوام اس بات کا مطالبہ کریں گے اور پیغام دیں گے کہ ہمیں تمہارے احتجاج کا نہیں ہمیں تمہارے اقدام کا انتظار ہے۔

حکومت کی پالیسی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر وہ بہت واضح ہے۔ حکومت کی پالیسی مدافعانہ ہے، بزدلانہ ہے اور حکومتی پالیسی خوف پر مبنی ہے۔ آپ حکومت کا حال دیکھ لیں کہ اس ساری صورتحال پر جب جذبہ حریت قوم میں بیدار کرنا چاہئے حکومت اپنی ہی قوم کو ڈرانے میں لگی ہوئی ہے، تمام صورتحال پر دھمکانے لگی ہوئی ہے۔ گو کہ ہر طرح سے حکومتی پالیسی ڈر اور خوف پر مبنی ہے۔

دیکھیں مسئلہ کشمیر میں جب سے آرٹیکل 370 اور 35A کا خاتمہ ہوا ہے ہماری اس وقت سے واضح پالیسی اور حکومت سے مطالبہ یہ ہے کہ جس طرح انڈیا نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی بلکل اسی طرح پاکستان حکومت بھی اپنی فوجیں مقبوضہ وادی میں داخل کرے، اور یہ ہمارا واضح اور دو ٹوک مطالبہ ہے۔ اور بلکل جس طرح بہارت نے وہاں فوجیں داخل کی ہیں پاکستاں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ پاکستان بھی اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرے۔

اور پہلے تو ہماری حکومت ہمیشہ سے رٹ لگاتے آئی ہے کہ ہم اخلاقی اور سفارتی طور پر کشمیر کی حمایت جاری رکھیں گے، اب ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اعلان کرنا چاہیئے ہے کہ اب ہم کشمیر کی عملی طور پر بھی مدد کریں گے۔
    وزیر اعظم کا یہ بیان کہ اگر بہارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو تب جواب دیں گے، انتہائی بزدلانہ ہے۔ اس کا مطلب آپ انڈیا سے ڈھکے ہوئے الفاظ میں کہ رہے ہیں کہ آپ مقبوضہ کشمیر میں جو مرضی کرتے رہیں۔

چاہے جس طرح کے بھی اقدامات کرتے رہیں آپ مقبوضہ کشمیر میں، لیکن اگر آپ نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو ہم تب جواب دیں گے انتہائی نامناسب اور وزیراعظم کی شایان شان بیان نہیں یہ۔ اس بیان سے تو آپ بھارت کو شہ دے رہے ہیں کہ آپ وہاں جو چاہے کریں ہم یہاں چپ کرکے بیٹھے رہیں گے۔
    انڈیا جوکہ ظالم ہے اور ظلم پر مبنی مقدمہ لڑ رہا ہے، اس کا وزیراعظم 25 ممالک کے دورے کرچکا ہے اور وزیر خارجہ 40 سے ذائد ممالک کے دورے کرچکا ہے۔

اور ہمارے وزیراعظم صاحب نے دو مرتبہ اپنی ہی قوم سے خطاب کیا ہے، 35 سے 40 ٹویٹ کیئے ہیں۔ اور وزیرخارجہ نے بھی 20 سے 22 ممالک کو ٹیلیفون کیئے ہیں۔ اس سے ہی حکومتی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی ظاہر ہوجاتی ہے کہ کس قدر اہمیت دی جارہی ہے ان میں مسئلہ کشمیر کو۔ ادھر مودی ہے جوکہ کشمیر میں بھی جارحانہ اقدام کررہا ہے اور خارجہ پالیسی میں بھی جارحیت اپنائے ہوئے اور ایک طرف پاکستان کے حکمران اسلام آباد میں بیٹھے اپنی ہی قوم کو خطاب کرتے جارہے ہیں، ٹویٹ کرتے جارہے ہیں۔

یہ حکومت کی ناکام حکمت عملی اور بلکل ناکام خارجہ پالیسی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ اور اس پر سراج الحق صاحب نے پارلیمنٹرینز کانفرنس میں آواز اٹھائی ہے۔ اگر آج ہم نے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ اپنائی تو یہ جنگ ہمیں مظفرآباد، سیالکوٹ، قصور اور لاہور میں لڑنی پڑے گی اور یہ تباہ کن اثرات لے کر آئے گی۔
    وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اگر پاکستان میں سے کوئی مقبوضہ کشمیر لڑنے کیلئے گیا تو وہ پاکستان اور قوم کا غدار ہوگا انتہائی افسوسناک ہے، انہیں تو کہنا چاہیئے تھا کہ اگر دنیا اس مسئلہ کی جانب متوجہ نہ ہوئی اور انہوں نے یہ مسئلہ حل نہیں کروایا تو ہم پاکستان کے نوجوانوں کو پاکستانیوں کو کشمیر جانے سے نہیں روک پائیں گے۔

وزیراعظم کے اس بیان سے پرویز مشرف کی یاد تازہ ہوگئی، جس طرح ان کا نظریہ اور حکمت عملی بزدلانہ تھی بلکل اس ہی طرح عمران خان کا بھی وہی رویہ ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
    میں سمجھتا ہوں کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی فیملی کا حصہ مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے اور وہ خود بھی مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔ انہوں کے جذبات فطرتی تھے، ان کا مطالبہ حقیقی ہے۔

حکومت کو چاہیئے کہ انہیں ساری دنیا میں پہنچ دلوائے تاکہ وہ کشمیر کا مقدمہ خود لڑیں کیونکہ وہ خود کشمیری ہیں اور بہتر طور پر حالات و واقعات کے بارے میں آگاہ بھی ہیں۔ اور وہ مسئلہ کشمیر کو بہترین طریقہ سے اجاگر کرسکتے ہیں اور بہترین طریقہ سے ہی دنیا تک حقیقی حالات کشمیر پہنچا سکتے ہیں۔ وہ کشمیریوں کے احساسات و جذبات کی بھی بہتر ترجمانی کرسکتے ہیں، اس کیلئے انہیں مالی اور سفارتی اعانت دینی چاہیئے ہے اور یہ ہی طریقہ بہتر ہے۔

اور ہمارا مطالبہ ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ اس مسئلہ کو اجاگر کرنے میں مضبوطی آئے۔ اور اب تو آزادکشمیر کی حکومت یہ مطالبہ بھی کررہی کے کہ ہماری اپنی فوج ہونی چاہیئے، اگر ان کی اپنی فوج ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔
    جی بلکل جماعت اسلامی آذاد کشمیر نے اعلان کیا تھا کنٹرول لائن توڑنے کا، جس کے بعد وزیراعظم آزاد کشمیر کی سربراہی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس ہوئی اور اس میں طے ہوا کہ سب پارٹیز مل کر LOC کی جانب مارچ کریں گی۔

جس کے بعد سراج الحق صاحب نے اس فیصلے کو 27 ستمبر تک موخر کیا، لیکن اگر 27 ستمبر کو تمام پارٹیز متحد ہوکر نہ گئیں تو سراج الحق صاحب اس بات کا خود اعلان کریں گے کہ کب جانا ہے LOC کی جانب۔ لیکن اس بات میں بہتری ہے اور قوت ہے کہ تمام پارٹیز مل کر LOC کی جانب مارچ کریں۔ میں 6 اکتوبر کے حوالے سے اہلیان لاہور سے بالخصوص اور اہلیان پنجاب سے بالعموم گزارش کروں گا کہ وہ ایک دن 6 اکتوبر کشمیر کے نام کریں اور اپنی گاڑی اور موٹرسائیکل پر نکلیں اور ناصر باغ میں کشمیر مارچ میں شرکت کریں، اور یہ ہرگز نہ سوچیں کہ میرے جانے سے کیا ہوگا، بلکہ یہ سوچ کر نکلیں کہ میری آواز کشمیر کیلئے ہے اور کشمیری ہماری جانب دیکھ رہے ہیں۔

اور میری خصوصی گزارش نوجوانوں سے اور دینی جماعتوں سے ہے کہ وہ بھی اس مارچ میں شریک ہوں تاکہ ہم ایک توانا آواز مال روڈ سے کشمیریوں کے حق میں اٹھائیں۔

فیصل آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں