پی ٹی آئی حکومت زراعت کی ترقی اور کاشتکار کی معاشی حالت میں بہتری کیلئے پرعزم ہے، سید فخر امام

ہفتہ 21 ستمبر 2019 00:00

فیصل آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 ستمبر2019ء) چیئرمین کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت زراعت کی ترقی اور کاشتکار کی معاشی حالت میں بہتری کیلئے پرعزم ہے اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں قومی کمیٹی برائے زرعی ترقی کپاس کی امدادی قیمت کے تعین سمیت ریسرچ و ڈویلپمنٹ بجٹ میں اضافہ کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے ۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سنڈیکیٹ روم میں کپاس کی پائیدار پیداوار اور اس میں کمی کی وجوہات پر منعقدہ سٹیک ہولڈرز میٹنگ سے مہمان خصوصی کے طو رپر اپنے خطاب میں سید فخر امام نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستان کو دنیا بھر کی مستردزرعی مصنوعات کا قبرستان بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے آج ہماری فصلوں پر حملہ آور 70فیصد سے زائد کیڑے اور وائرس سالانہ اربوں ڈالر نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ 1970ء سے 1990ء تک کپاس کے چار سائنس دانوں نے پیداوار کو چار گنا تک بڑھانے کی بنیاد ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین 1996ء اور بھارت نے 2002ء سے کپاس کے بیج میں بہتری لاکر پیداوار کو بالترتیب 37ملین اور 35ملین گانٹھوں تک بڑھالیا جبکہ پاکستان میں فیصلہ سازی کی تاخیر کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ چین کی 50جامعات دنیا کی 1000بہترین جامعات میں شامل ہیں جبکہ پاکستان کی بمشکل پانچ جامعات کی فہرست کا حصہ بن پائی ہیں لہٰذا آج زرعی یونیوسٹی سمیت ہماری پروفیشنل جامعات میں مستقبل کے 20سال کی بروقت منصوبہ سازی کرتے ہوئے پیش رفت کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ 1960ء کے اوائل میں کاش ہم زرعی تعلیم و تحقیق کو علیحدہ نہ کرتے تو آج ہم چین اور بھارت سے چنداں پیچھے نہ رہتے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم نے گزشتہ پچیس برسوں میں زراعت کو کما حقہ اہمیت نہیں دی اور اگر 10ملین گانٹھوں کے ساتھ ہم کپاس کی ویلیو ایڈیشن پر توجہ دیتے تو 40ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر رہے ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اور بھارت میںکاشتکار کو زرعی اجناس کی مارکیٹ قیمت یقینی بنائی جاتی ہے لیکن پاکستان میں کسانوں کواستحصالی قوتوں نے یرغمال بنارکھا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ جس خلوص اور محنت کے ساتھ موجود ہ حکومت مافیازکا زور توڑنے کیلئے کوشاں ہے اسے سراہا جانا چاہئے۔ سید فخر امام نے کہا کہ چین معاشی طور پر بہت مضبوط ملک ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران 70کروڑ لوگوں کو غربت سے باہر نکالا اور آج 2500ارب ڈالر امریکہ کی سینٹرل بینک میں جمع کروا رکھے ہیں کیونکہ اس کے پاس خرچ کرنے کی جگہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں ہمیں چین سے جو معاونت میسر آئی ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک سے نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی70فیصد آبادی 30سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں ہم آئی ٹی انڈسٹری سے منسلک کرکے آئی ٹی برآمدات میں اربوں ڈالر کا اضافہ کر سکتے ہیں۔انہوں نے پاکستان میں ویلیو ایڈیشن پر توجہ نہ دیئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا سرمایہ کار مینوفیکچرنگ پر سرمایہ نہیں لگاتے اور ملک کو خا م مال باہر بھیجتے ہوئے اسی خام مال سے تیار مصنوعات کی درآمدی منڈی بنا دیا گیا ہے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) نے کہا کہ پاکستان بیشتر فصلات اور سبزیوں کے بیج چین‘ بھارت‘ ایران اور ترکی سے درآمد کرتا ہے جبکہ ہماری خام کپاس کم قیمت میں بنگلہ دیش برآمد کرکے ویلیو ایڈیشن کے بعد اربوں ڈالربنگلہ دیش کی اکانومی کا حصہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2004ء میں کپاس ملک کے جی ڈی پی میں 9فیصد کی حصہ دار تھی جو آج کم ہوکر 0.8فیصد رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ 2015-16ء میں کپاس پر گلابی سنڈی اور سفید مکھی کے حملہ سے 4تا 5ملین گانٹھوں کی کمی آئی جس نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں مکئی کی ساڑھے تین کراپس سالانہ لی جا رہی ہیں اور چین کے صحرائی علاقوں میں بھی مکئی کی کامیاب کاشت رواج پا رہی ہے لہٰذا ہمیں بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ زرعی پالیسی سازی کرنا ہوگی۔

انہوں نے بتایاکہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہر طالب علم کیلئے لازم قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ ڈگری مکمل کرنے سے پہلے چھ ماہ متعلقہ انڈسٹری یا ترقی پسند کاشتکارکے ساتھ انٹرن شپ مکمل کرے گا جبکہ وہ مستقبل میں یہ اقدام بھی کرنے جا رہے ہیں کہ ہر تین سال بعد یونیورسٹی پروفیسرکم سے کم تین ماہ تک متعلقہ انڈسٹری یا ترقی پسند کاشتکار کے ساتھ اپنے علم و ہنر کو نئے رجحانات سے مہمیز کرے۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل کے چیئرمین انجینئر جاوید سلیم قریشی نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالا تیسرا بڑا ملک ہے اور ہمیں اپنی پالیسی اور ترجیحات کو ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنی زراعت کو آگے بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جنوبی اضلاع میں درجہ حرارت بڑھنے سے ہوا میں زیادہ نمی اور حبس وائٹ فلائی اور دوسرے نقصان دہ کیڑوں کی نشوونما کیلئے موزوںماحول فراہم کرتے ہیں جس کا تدارک ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے تلہ گنگ جیسے علاقوں میں کپاس کی فصل کو صرف دو آبپاشی اور دوسپرے کے ذریعے مکمل کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ پٹوہار میں زیادہ بارش اور ہوا کی وجہ سے مستقبل میں کپاس کی کاشت کو ان علاقوں میں شفٹ کیا جائے توپیداوار بڑھائی جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ مفادات کے تصادم سے بچنے کیلئے فوری طورپر خودمختار اور غیرجانبدار ڈائریکٹر جنرل سیڈکی تعیناتی عمل میں لائی جائے تاکہ نئی ورائٹیوں کی منظوری کا عمل آسان بنایا جا سکے۔

نامور سائنس دان ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران کپاس کا زیرکاشت رقبہ 6.2ملین ایکڑ سے کم ہوکر 4.6ملین ایکڑ رہ گیا ہے جس کی وجہ سے پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ مارکیٹ میں استحصالی قوتوں کی موجودگی کی وجہ سے کپاس کے بیشترکاشتکار مکئی اور گنے پر منتقل ہوگئے جو کپاس کے رقبے اور پیداوار میں کمی کا باعث بنا ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر کراپ زوننگ کرکے امدادی قیمت صرف انہیں علاقوں میں دی جائے جو متعلقہ فصل کی کاشت کیلئے موزوں قرار دیئے جائیں۔ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ڈاکٹر عابد محمود نے کہاکہ چین میں زیاد ہ سے زیادہ درجہ حرارت 35سینٹی گریڈ ہے لیکن پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنوبی پنجاب کا عمومی درجہ حرارت 40سینٹی گریڈ سے زائد رہا جس سے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ جانے سے وائٹ فلائی اور دوسرے کیڑے حملہ آور ہوئے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان کرتے ہوئے اس کے زیرکاشت رقبہ میں اضافہ کیا جائے تو پیداوار میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔ڈائریکٹر جنرل توسیع ڈاکٹر انجم علی بٹر نے کہا کہ امسال کپاس کی آف سیزن بہتر مینجمنٹ کی وجہ سے گلابی سنڈی کے حملے میں خاصی کمی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ امسال فیرامون ٹریپس کی بروقت درآمد سے بھی معاملات میں بہتری متوقع ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ پنجاب میں ایک لاکھ ایکڑ کیلئے بہترین سیڈ فراہم کیا گیا ہے اور صوبے میں 70فیصد علاقوں میں بہترین ورائٹیاں کاشت کی جا رہی ہیں تاہم زیرکاشت رقبہ میں کمی سے پیداوار میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ڈائریکٹر سینٹرل کاٹن انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ چین میں پرائیویٹ کمپنیاں حکومتی اداروں کے ساتھ ملک کر ورائٹی متعارف کرواتی ہیں جس کا ایک مخصوص شیئرحکومتی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔

انہوں نے بھارت پاکستان اور چین کا فی ایکڑ کپاس کے پیداواری خرچے کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان فی ایکڑ 76ہزار‘ چین 70ہزاراور بھارت صرف 18ہزار روپے خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستانی کسان سرمایہ کاروں کی اجارہ داری کا شکار ہوکر کاشتکاری سے بددل ہورہا ہے۔ پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے کپاس کی امدادی قیمت کے تعین‘ ریسرچ و ڈویلپمنٹ اور کسان کے خالص منافع میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔

پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ ڈاکٹر اللہ رکھا نے انکشاف کیا کہ 1998ء سے آج تک اس محکمے کا مستقبل ڈائریکٹر جنرل تعینات نہیں کیا گیا جبکہ 1970 ء کی دہائی میں منظور کی گئی 80فیصد آسامیوں پر موزوں اور باصلاحیت افراد کا تعین نہیں کیا گیا ایسے حالات میں انہیں قومی ذمہ داریوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ترقی پسند کاشتکار محترمہ عذرامحمود شیخ نے کہا کہ زرعی اجناس کی فوری زوننگ کی جائے اور کپاس کی امدادی قیمت کا فوری اعلان کیا جائے۔

انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ امدادی قیمت نہ ہونے اور مارکیٹ میں اجارہ دارقوتوں کی وجہ سے کپاس کا زیرکاشت رقبہ 6.2ملین ایکڑ سے کم ہوکر 4.6ملین ایکڑ رہ گیا لہٰذا حکومت کو فوری طورپرقومی معیشت کے اس بڑے سیکٹر کا ہاتھ تھامنا ہوگا۔ میٹنگ کے میزبان ڈاکٹر جلال عارف نے گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران ملک میں کپاس کے پیداواری اتار چڑھائو‘ سفید مکھی اور گلابی سنڈی سے پہنچنے والے نقصانات اور اس حوالے سے صوبہ بھر میں کئے گئے سروے نتائج کاحوالہ دیتے ہوئے کمی کی وجوہات کا احاطہ کیا۔

فیصل آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں