فیصل آباد ،زیر تربیت افسروں کے مطالعاتی دوروں کا مقصد انہیں زمینی حقائق سے آگاہ کرنا ہے ، عبدالستار

منگل 22 اکتوبر 2019 20:36

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اکتوبر2019ء) :زیر تربیت افسروں کے مطالعاتی دوروں کا مقصد انہیں زمینی حقائق سے آگاہ کرنے کے علاوہ سماجی اور معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اہم طبقوں کے فکری رجحانات اور میلانات سے بھی روشناس کرانا ہے۔ یہ بات نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ پشاور کے چیف انسٹرکٹر عبدالستار نے 28ویں مڈ کئیریر کورس کے زیر تربیت افسروں کے دورہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے بتایا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ میں زیر تربیت افسروں کی انتظامی، مالیاتی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کیلئے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ پوری محنت، خلوص اور جذبے سے ترقیاتی اور فلاحی سکیموں کے فوائد عوام الناس تک پہنچا سکیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس کورس میں ملک بھر کے افسران شامل ہوتے ہیں۔

ان 44افسروں میں سے 22چترال کے دورے پر گئے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے افسران فیصل آباد کے مطالعاتی دورہ پر آئے ہیں، تاکہ وہ یہاں کی زرعی ، صنعتی ، تجارتی اور کاروباری اہمیت کا از خود جائزہ لے سکیں۔ انہوں نے معیشت کے بارے میں صدر فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے خیالات سے اتفاق کیا کہ بزنس کمیونٹی اور بیورو کریسی دونوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ہماری برآمدات گزشتہ کئی سالوں سے 20سے 22ارب ڈالر پر رکی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کمشنر نے ملاقات کے دوران انہیں اس ڈویژن کے انتظامی ڈھانچے کے بارے میں آگاہ کیا جبکہ صنعتی معاملات کیلئے ان زیر تربیت افسروں کا فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری آنا ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے ملکوں کے سفیر اپنے ملکوں کے مارکیٹنگ مینیجرز کے طور پر کام کرتے ہیں، جبکہ پاکستان کے سلسلہ میں ہمارے سفارتکاروں کا رویہ تاجر دوست نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اس رجحان کے خاتمے کیلئے وہ ہر ممکن کوششیں کریں گے تاکہ ملکی معیشت کو ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر ترقی دی جا سکے۔ انہوں نے صنعتی ترقی کیلئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ابھی تک ہمارے ملک میں ریسرچ کا کلچر فروغ نہیں پا سکا ۔ انڈر انوائسنگ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سول سروس کے لوگوں کو اس کی روک تھام کیلئے خود احتسابی سے کام لینا ہو گا۔

جبکہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو یہاں لانے کا یہ مقصدبھی تھا کہ اس سے بین الصوبائی رابطے بڑھیں۔ اس سے قبل خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے صدر رانا محمد سکندر اعظم خاں نے بتایا کہ وہ اس ڈویژن کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ اس کے ممبروں کی تعداد 7ہزار ہے۔ انہوں نے بتایا چیمبر کے ممبروں کی دو کیٹگری ہیں جن میں سے ایک کارپوریٹ اور دو سری ایسوسی ایٹ کلاس ہے۔

ایک سال کارپوریٹ جبکہ دوسرے سال ایسوسی ایٹ کلاس سے صدر منتخب کیا جاتا ہے، جبکہ ان کا تعلق ایسوسی ایٹ کلاس سے ہے۔ انہوں نے کہا اگرچہ آبادی کے لحاظ سے فیصل آباد ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے مگر کارکردگی میں فیصل آباد چیمبر پہلے نمبر پر ہے۔ منتخب باڈی اور سیکرٹریٹ نے مل کر اس چیمبر کو پاکستان کا رول ماڈل چیمبر ثابت کیا ہے۔ پاکستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 73سالوں کی کوششوں کے باوجود پاکستان آگے جانے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے۔

اس کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے ، تاہم اس صورتحال سے نکلنے کیلئے ہم سب کو مل جل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چند لوگ بہت خوشحال ہیں مگر پاکستان غریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کیلئے ہمارے پاس آخری موقع ہے اور ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔

ان لینڈ ریونیو کے ایک افسر کے سوال کے جواب میں رانا محمد سکندر اعظم خاں نے کہا کہ وہ ہر جگہ ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کئے بغیر ہی فیصلے کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ان کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین نے پاکستان کو 12ارب کی برآمدات کیں مگر ہمارے کاغذوں میں یہ چھ ارب ڈالر ہیں۔ انہوں نے کہا چھ ارب ڈالر انڈو انوائسنگ کے ذریعے خرد برد ہوئے اور یہ کام تاجروں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ انہوں نے اس کو پاکستانی معیشت کے خلاف کھلی جنگ قرار دیا اور کہا کہ جس دن بیوروکریسی نے تہیہ کر لیا کہ وہ کرپشن کا حصہ نہیں بنے گی اس دن یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فیصل آبا دچیمبر غیر سیاسی ادارہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سال جون کے بجٹ کے بعد سے 70فیصد بزنس بند پڑا ہے، پاور لومز بند ہونے سے 6لاکھ مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم سیاسی موشگافیوں میں پڑنے کی بجائے حکومت اور بزنس کمیونٹی میں پل کا کردار ادا کر رہے ہیں تاکہ ان مسائل کا قابل عمل اور درمیانی راستہ نکل آئے۔

رانا محمد سکندر اعظم خاں نے وزیر اعظم عمران خان سے اپنی ملاقات کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ اُن کیلئے معیشت پر بات کرنے کیلئے وقت نہیں ۔ لیکن جب سے 17فیصد سیلز ٹیکس نافذ ہوا ہے ہر شخص پریشان ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیلز ٹیکس دراصل کنزیومر ٹیکس ہے اور یہ صارف نے دینا ہوتا ہے مگر صرف ایک ہزار ایٹم پر سیلز ٹیکس میں سے صرف 20سے 30فیصد ٹیکس جمع ہوتا ہے۔

اسی طرح سمگلنگ پیراشوٹ سے نہیں ہوتی، اسے سرحدوں پر روکا نہیں جاتا۔ سیکرٹری جنرل فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری عابد مسعود نے بتایا کہ ہماری ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح انتہائی شرمناک ہے۔ پچھلی حکومت نے 96سے 98ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑا تھا جبکہ اس حکومت نے بھی مزید قرضہ لیا ۔ اس وقت ہماری معیشت شدید دبائو کا شکار ہے ، اس صورتحال سے نکلنے کیلئے موجودہ ٹیکس گزاروں کے گرد حلقہ تنگ کرنے کی بجائے نئے ٹیکس گزاروں کو تلاش کرنا ہوگا اور ا س سلسلہ میں کیشن اکانومی کی بجائے ڈیجیٹل اکانومی یا ای کامرس کو رواج دینا ہوگا۔

زیرو ریٹ کی سہولت ملنے کے باوجود ٹیکسٹائل کی برآمد نہ بڑھنے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ حکومت اپنی کوششوں کے باوجود پیداواری لاگت اور کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے میں ناکام رہی ۔ اس تقریب میں زیر تربیت افسروں کے سوالوں کے جوابات ڈاکٹر حبیب اسلم گابا ، کاشف ضیاء اور ڈاکٹر سجاد نے دیئے جبکہ نائب صدر بلال وحید نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ آخر می صدر رانا محمد سکندر اعظم خاں نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ پشاور کے چیف انسٹرکٹر عبدالستار کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کی شیلڈ پیش کی۔ جبکہ عبدالستار نے بھی صدر رانا محمد سکندر اعظم خاں کو نم پشاور کی شیلڈ دی۔

فیصل آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں