اچھے معاشرے کی تشکیل کیلئے اگر ہم نبی کریمؐکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں توپاکیزہ ،صالح اور عدیم المثال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں،سید علی رضا بخاری

ہماری بدنصیبی ہے ہم قرآن وسنہ کی روشنی میں تشکیل پانے والے معاشرے سے گھبراتے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہمارامعاشرہ تنزلی کی جانب گامزن ہے، تقریب سے خطاب

ہفتہ 10 نومبر 2018 14:55

گجرات (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 نومبر2018ء) ممبر آزاد جموں وکشمیر قانون سازاسمبلی و سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر سید علی رضا بخاری نے کہا کہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے اگر ہم نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں توایک پاکیزہ ،صالح اور عدیم المثال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم قرآن وسنہ کی روشنی میں تشکیل پانے والے معاشرے سے گھبراتے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہمارامعاشرہ تنزلی کی جانب گامزن ہے۔

نبی کریم کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ایک اصلاحی اورفلاحی معاشرہ اس وقت تشکیل پاسکتا ہے جب ہرفرداپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب متحدہوکر قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور ایک اصلاحی معاشرے کے قیام کے لئے اپنا مثبت کردار اداکریں وہ یو نیورسٹی آف گجرات میں انٹر نیشنل قرآن کانفرنس میں ‘‘قرآنی تعلیمات و پیغام پاکستان و فکر اقبال کی روشنی میں مثالی معاشرہ کی تشکیل ‘‘ کے عنوان پر خطاب کر رہے تھے ، کانفرنس سے وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی ،وزیر مذہبی امور حکومت پنجاب پیر سید سعید الحسن شاہ ، ڈاکٹر ضیاء الحق ڈی جی ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ، ڈاکٹر ضیا ء القیوم وائس چانسلر یو نیورسٹی آف گجرات ، ڈاکٹر ارشد لغاری ہیڈ اسلامی ڈیپارٹمنٹ نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے اپنے خطاب میں پیر علی رضا نے کہا کہ دوسری قوموں کو اپنے عمدہ اخلاق و کردار اور حسن سلوک سے زیر کرنے والی قوم آج خود ان اوصاف سے عاری ہو کر رہ گئی ہے۔ اسلام دینی احکامات کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار سازی، مساوات و بھائی چارگی، امانتداری و رواداری کا درس دیتا ہے۔ بد دیانتی اور رشوت خوری سے روکتا ہے تا کہ عزت و شرف کا تاج ان کے سر پر برقرار رہے۔

کسب حلال، صلہ رحمی، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک اور حق گوئی کی تلقین کی گئی۔ دین کا جزء ہونے کی وجہ سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے پڑوسیوں کی حق تلفی کرنے والے کے ایمان کی نفی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقبال کی تعلیمات اور ان کے افکار سے عام شخص تک کے مستفیض ہونے اور ان کے اذہان میں نشین کرانے کے اقدامات کیے جانے چاہیئں،اس سلسلہ میں اسکولز، کالجزاور جامعات مٰیں تصورات ِ اقبال سے متعلق ایک مضمون شاملِ نصاب ہونا ضروری ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہوبھی جائے تو اقبال کی آواز ، ان کی تعلیمات کا دائزہ کار تمام دنیا تک کیسے پہنچ پائے گا۔ اقبال کی تعلیمات چونکہ کسی خاص خظہ یا کسی خاص وقت کے لیے مخصوص نہیں ہیں لہٰذا دنیا بھر میں ان کی تعلیمات کی ترویج کوئی ناممکن عمل نہیں ہے۔اس کے لیے سفارتی سطح پر تعلقات استعمال کرکے مسلم ممالک کی بین الاقوامی جامعات میں اقبالیات کو بطور مضمون شامل کرایا جا سکتا ہے۔

یہیں سے اس انقلاب کی ابتدا ہو سکتی ہے جو تمام عالمِ اسلام کو یکجا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔دنیا کے تمام مسلمانوں پر تعلیمات اقبال کے ذریعہ باور کرانا ضروری ہے دنیا کے کسی بھی خطہ کے مسلمان ایک ہیں ، اس لیے سب کے مفادات اور نقصانات بھی یکساں ہیں۔ جغرافیائی بنیادوں پرقائم ترجیحات کو ختم کرکے اسلام کو بنیاد بنا کر برابری کا یکساں پیمانہ بنانا ہوگا۔

ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرکے مسائل حل کرنا ہونگے انہوں نے کہا کہ ملکی معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ دفاعی استحکام نہایت ضروری ہے ، دفاعی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اقوامِ عالم میں فقط پاکستان وہ اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا حامل ہے ورنہ تمام تر اسلامی ممالک دفاعی استحکام کے لیے غیر مسلموں کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اس کے برعکس کئی غیر مسلم قوتیں مثال کے طور پر امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس، اسرائیل، جرمنی وغیرہ سمیت کئی دیگر ممالک کو بھی ایٹمی قوت حاصل ہے اور دفاعی طور پر مضبوط ہورہے ہیں۔

عہدِ حاضر میں جہاں دینِ اسلام کی مضبوطی، اتحادِ عالم اسلام، بہتر تشخص اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے وہاں دفاعی طور پر بھی عالم اسلام کو مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس کے بغیر عالم اسلام کی جڑیں کمزور ہوتی جائیں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کا انحصار غیر مسلم قوتوں پر بڑھتا جائے گا جو کہ اقبال کے تصورات کے بالکل مخالف ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب متحدہوکر قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوںاور ایک اصلاحی معاشرے کے قیام کے لئے اپنا مثبت کردار اداکریںانہوں نے کہا کہ مثالی معاشرہ وہ تھا جس کو رسول نے تشکیل دیاتھا۔آج امت مسلمہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ رسول کے قائم کردہ مثالی اسلامی فلاحی معاشرہ کو دنیا میں فروغ دیں۔

گجرات میں شائع ہونے والی مزید خبریں