سندھ طاس معاہدے کے 61 سال مکمل حکمرانوں نے دریائے ستلج کو بیچا عوام آج تک خمیازہ بھگت رہے ہیں

Muhammad Naeem Yusha محمد نعیم یوشا پیر 20 ستمبر 2021 18:06

سندھ طاس معاہدے کے 61 سال مکمل حکمرانوں نے دریائے ستلج کو بیچا عوام آج تک خمیازہ بھگت رہے ہیں
حاصل پور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 ستمبر2021ء) حاصل پور میں دریائے ستلج پر بننے والا ہیڈ اسلام ورکس جو کہ خطہ بہاولپور کی بنجر زمین کو سر سبز و شاداب بنانے کے لیے بنایا تھا اب اپنی خشک سالی اور سیلابی پانی کے آنے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ملک شکیل بھوہڑ نے کہا کہ صدر ایوب نے سندھ طاس کا معاہدہ کرکے ہمارا جو حشر کیا ہے اس کے نتائج ہم آ ج تک بھگت رہے ہیں بھارت اب تک دریائے ستلج کو صرف فلڈ ریور کے طور پر استعمال کر رہا ہے  ہمارا نہری نظام تباہ اور زیر زمین پانی کا لیول بڑھنے سے حاصل پور اور چولستان کا خطہ شدید مشکلات کا شکار ہے کچھ عرصہ پہلے دریائے ستلج کی بندش اور سندھ طاس معاہدے کے خلاف ورزی پر ہیڈ اسلام کے مقام پر بہت بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی تاکہ سوے ہوے حکمران جاگ سکے اس ریلی کے ساتھ اپنی یادیں تازہ کرتے ہوے خان خدا یار چنڑ کا کہنا تھا کہ ضیا شاہد محروم نے اپنے وسیب سے محبت کا اظہار کرتے ہو اس اہم مسلے پر آواز بلند کی بھارت اس دریا کا پانی روک کر ہمارے علاقے کو بجنر کر چکا ہے ہم نے بہاولنگر بہاولپور اور ملتان میں اس پر عوام کی ترجمانی کرتے ہوے اعلی سطح پر مسلہ اٹھایا مگر آج تک سب خاموش تماشائی بنے ہوے ہیں سیاسی و سماجی رہنما ملک نعیم ایڈووکیٹ نے دریائے ستلج پر بات کرتے ہوے کہا بھارت نے غیر قانونی طور 120 ڈیمز بناے مگر ہم آج بھی پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ ڈیمز نہ بننے سے بجلی کی کمی کا شکار ہیں محسن پاکستان نے اس دریا پر ستلج ویلی کے نام سے نہری نظام کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ چولستان کی زمین کو زرعی زمین بنایا جا سکے مگر حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم آج تک اس دریا کی وجہ سے نہری نظام میں پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہیں بہاولپور کی تاریخ کے بارے مشہور محقق ڈاکٹر زوالفقار علی نے ستلج کہ تاریخ بیان کرتے ہوے بتایا کہ
دریائے ستلج اس کی کل لمبائی 1448 کلومیٹر ہے دریائے ستلج ہمالیہ کی گھاٹیوں سے گزر کر ہماچل پردیش کی ریاست میں 900 میل تک کے علاقے کو سیراب کرتا ہوا  ضلع ہوشیار پور کے میدانی علاقوں میں آ جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں سے ایک بڑی نہر کی شکل میں جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا دریائے بیاس میں گر کر پاکستانی پنجاب کے ضلع قصور میں پاکستانی علاقہ میں داخل ہوتا ہے اور اوچ شریف سے ہوتا ہوا پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں ضم ہوجاتا ہے مگر اب سیلاب کی وجہ سے اس میں پانی آتا ہے چولستانی کی تہزیب تصاویر کے زریعے دنیا بھر میں کی آکاسی کرنے والے وسیم اقبال کا کہنا تھا کہ یہ ستلج دریا جو کبھی بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے اب خشک سالی سے تاریخ کے اوراق میں گم ہو رہا ہے محسن پاکستان سر صادق خان عباسی صاحب نے اپنی ریاست کو زرخیز بنانے کے لیے دریائے ستلج سے نہریں نکالیں جن کا پانی نہ صرف زمینوں کو سیراب کر رہا ہے بلکہ صحرائے چولستان کے کچھ علاقوں میں فصلیں اگانے میں استعمال ہوتا ہے۔

1960ء کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے مگر اس پر ضم. کی گئی ریاست سے مشورہ تک نہ کیا گیا  ہندوستان نے دریائے ستلج پر بھاکڑہ ننگل ڈیم تعمیر کیا ہے
اس دریا کے پانی سے بھارتی صوبوں پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں زرعی زمین سیراب کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے ظلم کا شکار دریائے ستلج  کا پانی اب بھارت سے پاکستانی علاقے میں صرف سیلاب کی صورت میں داخل ہوتا ہے کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے ستلج، دریائے سندھ سے مل جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دریائے ستلج تحصیل احمد پور شرقیہ کے قصبہ اوچ شریف کے نزدیک سے گزرتا تھا۔ جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔

حاصل پور میں شائع ہونے والی مزید خبریں