شکارپور کے ڈکیتوں سے مغوی گلوکار آزاد کرالیے گئے

پولیس نے اغوا کے بدلے گرفتاری کا حربہ استعمال کرتے ہوئے گلوکار اور اس کے بینڈ کو ڈکیتوں کے چنگل سے آزاد کرایا

جمعہ 23 اگست 2019 20:14

شکارپور کے ڈکیتوں سے مغوی گلوکار آزاد کرالیے گئے
حیدر آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اگست2019ء) چند ہائی پروفائل کیسز و دیگر میں مغویوں کو بازیاب کرانے کے لیے پولیس 'اغوا کے بدلے گرفتاری' کا حربہ استعمال کرتی ہے تاکہ جواب میں قید مغویوں کو آزاد کیا جاسکے۔یہی طریقہ پولیس نے شکارپور کے ڈکیتوں کے گروہ کے ساتھ گلوکار اور ان کے 5 رکنی بینڈ کو بازیاب کرانے کے لیے اپنایا۔ؔ رپورٹ کے مطابق پولیس کو ڈکیتوں کے خلاف آپریشن میں سخت چیلنجز کا سامنا تھا جن میں مجرمان کے پاس جدید اسلحہ، جہاں ڈکیت چھپے ہیں اس کی زمینی صورتحال مشکل ہونا اور دریائے سندھ میں تیزی شامل ہے جس کی وجہ سے پولیس آپریشن کامیاب نہ ہوسکا تاہم اغوا کے بدلے گرفتاری کا حربہ کامیاب رہا۔

سینیئر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ڈکیتوں کے چند اہلخانہ اور قبائلی سرداروں کو گرفتار کیا اور یہ طریقہ کامیاب رہا'۔

(جاری ہے)

لاڑکانہ کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ 'گڑھی تیغو سے ڈکیتوں نے مغویوں کو رہا کردیا ہے جنہیں کشتی کے ذریعے سکھر لے جایا جارہا ہی'۔پولیس نے ڈکیتوں کے درجنوں قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کیا جب میں تیغانی قبیلے کے سردار، بھانجے اور بھتیجے شامل ہیں۔

ان لوگوں کو بیلو تیغانی گروہ کو گلوکار اور اس کے بینڈ کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ذرائع کے مطابق شکارپور کے نپرکوٹ تھانے کی حدود میں گڑھی تیغو کے علاقے میں پولیس آپریشن کو دریائے سندھ میں تیزی کے پیش نظر روک دیا گیا تھا جس کی وجہ سے نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس گڈو بیراج کے نزدیک دریائی علاقے تک پہنچ نہیں پارہی تھی کیونکہ یہ سارا علاقہ زیر آب آچکا تھا۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ 'ہم نے ڈکیتوں کی سپلائی اور ان کے آنے جانے کے راستے بند کردیے ہیں'۔مغویوں میں گلوکار غلام نبی عرف جگر جلال اور ان کا بینڈ شامل تھا جن میں ان کا بیٹا آفتاب احمد اور بھتیجا امیر علی شامل ہے۔سکھر کے ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل ڈاکٹر جمیل احمد کا کہنا تھا کہ 'پس پردہ ثالثی کا کام جاری ہے اور جو ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں ان پر پولیس سمیت ڈکیتوں اور مغویوں کو بھروسہ ہی'۔

گلوکار نے ڈکیتوں کی جانب سے ریکارڈ کی گئی ٹیلیفونک گفتگو میں کہا تھا کہ 'وہ ایک ایسے علاقے میں ہیں جہاں فوج و پولیس دونوں ہی نہیں پہنچ سکتی اور بہتر ہے کہ ڈکیتوں کے سرداروں سے رابطہ کیا جائے ورنہ مزید نقصان ہوسکتا ہی'۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ایک گینگسٹر نے لڑکی کی آواز میں بات کرتے ہوئے گلوکاروں سے گڑھی تیغو میں کام کرنے اور اپنے ساتھ چند خاتون ڈانسرز کو لانے کا کہا تھا۔

تاہم گلوکار اپنے ساتھ خواتین کو نہیں لے کر گئے جس پر ڈکیتوں نے غصے میں انہیں اغوا کیا۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں ہمیشہ ڈکیت بہتر پوزیشن پر رہتے ہیں، چار اضلاع کے درمیان ہونے کی وجہ سے جب بھی آپریشن کیا جاتا ہے تو ڈکیتوں کو بھاگنے میں آسانی ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 'جس طرح کا اسلحہ ڈکیت استعمال کرتے ہیں اس سے بھی پولیس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اینٹی ایئرکرافٹ گن سے پولیس کی گاڑیوں پر فائرنگ کرتے ہیں جن کے آگے بلٹ پروف گاڑیاں بھی کھڑی نہیں رہ پاتیں'۔واضح رہے کہ منگل کے روز انسپیکٹر راؤ شفیع اللہ، جو ڈی ایس پی کے طور پر فرائض نبھا رہے تھے، کو شہید کردیا گیا تھا جب وہ علاقے کا معائنہ کرنے کے لیے اپنی بکتر بند گاڑی سے باہر آئے تھے۔

حیدرآباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں