پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے بورڈ آف گورنرز کی43 ویں اجلا س میں کونسل کے لیے آئندہ مالی سال2018-19کے لیے بجٹ کی منظوری دے دی گئی۔

زراعت کو منافع بخش بنانا ہو گا ۔پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل زرعی تحقیق کے نتائج کو کسان کے کھیت تک لے جانے میں بہترین کردار ادا کر رہی ہے،سکندر حیات بوسن

جمعرات 24 مئی 2018 22:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 مئی2018ء) پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل 43ویں بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں مالی سال 2018-19کے لیے پی اے آر سی کا بجٹ پیش کیا گیا۔ اجلاس کا انعقاد پی اے آر سی ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہو جسکی صدار ت وفاقی وزیر برائے قومی تحفظِ خوراک و تحقیق اور PARC کی BoG میٹنگ کے صدرجناب سکندر حیات بوسن نے کی۔

اس موقع پر وزارت کے اعلی حکام اور پانچوں صوبوں سے بورڈکے ممبران نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں 2890.000ملین روپے غیر ترقیاتی بجٹ، 10% ایڈہاک ریلیف الائونس، 10% فیصدپنشن، 50 % ہائوس رینٹ اور ہائوس ہائرنگ،50% کنوینس الائونس ،1190.800 ملین روپے ترقیاتی بجٹ (جاری و نئے پراجیکٹس کے لئی) ،104.771ملین روپے MoU پراجیکٹس کے لئے جبکہ276.585 ،ملین روپے ALP پروگرام کے لئے اور اسکے علاوہ 1286.028 ملین سپلیمنٹری گرانٹ برائے سال 2018-19منظور کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

پی اے آر سی کا بجٹ محمد طارق خٹک ، ممبر فنانس ، پی اے آر سی نے پیش کیا۔ وفاقی وزیر نے پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے انتظامی بورڈ کی43 ویں اجلاس میں شریک معزز اراکین کو خوش آمدید کہا اوراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں زراعت کی ترقی اور غذائی تحفظ کے لئے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

اس کے نتیجے میں گذشتہ دو سال سے ہماری زرعی جی ڈی پی میں مسلسل بہتری آ رہی ہے اور زرعی ڈی جی پی جو 2014-15میں 0.02% پر پہنچ گئی تھی وہ بڑھ کر 3.8%کی اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کسانوں کے مسائل کا حل اور ان تک فصلوں کی نئی اقسام اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کونسل کے سائنسدانوں کے مرہون منت ہے۔ بہتر سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے جد ید علم اور نئی ٹیکنالوجی کو کسان کی دہلیز تک پہچانا ہو گا نیز حکومت کو بھی کاشتکار کی مشکلات میں کمی لانے کے لئے پیداواری لاگت کو کم کرنے میں عام کسان کی مدد کرنی ہو گی۔

۔انہوں نے کہا کہ چئیرمین پی اے آر سی ، ڈاکٹر یوسف ظفر، تمغہ امتیاز، کی زراعت کے شعبہ کے لیے اندرون اور بیرون ملک مضبوط روابط کے قیام میں تسلسل کے حصول کے لیے دی جانے والی خدمات کو سراہنا بھی بے جا نہ ہوگا ۔ انکی کاوشوں کے نتیجے میں قومی زرعی تحقیقاتی نظام (این اے آر ایس) ترقی کرے گا۔حیوانات کے شعبے میں منہ کھر اور کاٹا کی بیماری ، پرندوں کے زکام (برڈ فلو)اور مرغبانی سے متعلق دیگر بیماریوں پر کونسل کی تحقیق کی بدولت پاکستان 2008کے بعد سے برڈ فلو سے پاک ملک ہے اور اس پر کام کرنے والے ادارے (NRLPD) کو سارک(SAARC) علاقائی مرکز قرار دیا جانا قابل فخرہے۔

حال ہی میں کونسل کے سائنسدانوں کی شبانہ روز محنت کے سبب ڈھائی ارب روپے مالیت کا کپاس پر تحقیق اور ترقی اور 2800ملین روپے مالیت کا دالوں کی پیداوار میں اضافہ کے دو بڑے منصوبے منظور کئے جا چکے ہیں۔جناب فضل میکن،وفاقی سیکرٹری برائے تحفظ خوراک و تحقیق نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی کسان دوست پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ زراعت سے متعلقہ مختلف اجناس اور اشیاء پر خصوصی رعایت (سبسڈی) فراہم کی ہے اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف پیکجز پیش کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قوم کونسل کے زرعی سائنسدانوں سے بہت سے توقعات رکھتی ہے۔ ہماری اصل کامیابی یہ ہے کہ ہماری درآمدات کم سے کم ہوں اور زرعی بر آمدات بڑھائی جائیں تا کہ زر مبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہو اور ملک ترقی کی منازل طے کرے۔ ڈاکٹر یوسف ظفر(تمغہئامتیاز) چئیرمین پی اے آر سی نے سسٹم کی ترقی و ترویج کے لیے دیگر اُٹھائے جانے والے اہم اقدامات پر روشنی ڈالی۔

طارق محمود ، سیکرٹری پی اے آر سی، نے ہائوس کے سامنے ایجنڈا پیش کیا۔ اسکے بعد کونسل کے ممبران اور اعلی عہدیداران نے اپنے اپنے شعبہ جات کے حوالے سے میٹنگ میں تفصیلی بریفنگ دی۔ بورڈ کے دیگر ممبران نے کہا کہ ہمیں فصلوں کی پیداوار کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے دیگر عمل جیسے کہ عام کسان کی زرعی مصنوعات کی مارکیٹنگ اور تصدیق شدہ پلانٹ ، نرسریاں اور ٹریننگ مہیا کرنے پر بھر پور توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی تحقیق پر توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں