ایل این جی کی ماہانہ طلب 300، درآمد 1200 ایم ایم سی ایف ہے، خریداری کا معاہدہ ’’ٹیک اور پے’’ کا ہے، نہ خریدیں تو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے،

اضافی ایل این جی منگوائی جاتی ہے، استعمال نہیں ہوتی تو 7 ڈالر فی ایم ایم سی ایف نقصان ہوتا ہے، تین پاور پلانٹس کو مکمل طور پر آر ایل این جی پر نہیں چلانا تو قطر کے ساتھ معاہدے کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا، سوئی سدرن کی پارلیمنٹ کی جانب سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 21 اگست 2019 16:25

ایل این جی کی ماہانہ طلب 300، درآمد 1200 ایم ایم سی ایف ہے، خریداری کا معاہدہ ’’ٹیک اور پے’’ کا ہے، نہ خریدیں تو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے،
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اگست2019ء) سوئی سدرن کی پارلیمنٹ کی جانب سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ ایل این جی کی ماہانہ طلب 300، درآمد 1200 ایم ایم سی ایف ہے، خریداری کا معاہدہ ’’ٹیک اور پے’’ کا ہے، نہ خریدیں تو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، اضافی ایل این جی منگوائی جاتی ہے، استعمال نہیں ہوتی تو 7 ڈالر فی ایم ایم سی ایف نقصان ہوتا ہے، تین پاور پلانٹس کو مکمل طور پر آر ایل این جی پر نہیں چلانا تو قطر کے ساتھ معاہدے کا از سر نو جائزہ لینا ہوگاجبکہ کنوینر سید نوید قمر نے کہا کہ درآمدی ایل این جی خریدنے کے لئے گیس فیلڈ کو بند کیا جارہا ہے، قدرتی گیس کے ذخائر سے سپلائی کم کردی گئی ہے، پاور ڈویژن نے کچھ نہ کیا تو پی ایس او دیوالیہ ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر سید نوید قمر کی سربراہی میں بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کی رکن حنا ربانی کھر اور متعلقہ سرکاری افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کے 2016-17ء کے آڈٹ اعتراضات سمیت آر ایل این جی کی غیر قانونی خرید و فروخت جیسے معاملات پر غور کیا گیا۔

سوئی نادرن نے پی ایس او سے 95 ارب کی آر ایل این جی خریدی جسے بغیر کسی معاہدے کے آئی پی پیز کو فروخت کردیا گیا۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ایس این جی پی ایل اور جن کمپنیوں کو فروخت کی گئی ان کے درمیان بھی کوئی معاہدہ نہیںتھا۔ اس طرح سالوں تک بغیر معاہدے کے معاملات چلتے رہے۔ پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگست میں پاور پلانٹس کو 100 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی کم فراہم کی گئی۔

سیکرٹری پاور ڈویژن عرفان علی نے پی اے سی کو بتایا کہ ایس این جی پی ایل اور آئی پی پیز کے درمیان ایل این جی خریداری کا عبوری معاملہ موجودہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی معاہدہ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایس این جی پی ایل اور آئی پی پیز ایل این جی کی خریداری کا کا حتمی معاہدہ کررہے ہیں۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ حتمی معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایل این جی مناسب قیمت پر فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ درآمدی ایل این جی خریدنے کے لئے گیس فیلڈ کو بند کیا جارہا ہے۔ قدرتی گیس کے ذخائر سے سپلائی کم کردی گئی ہے۔اگر پاور ڈویژن نے کچھ نہ کیا تو پی ایس او دیوالیہ ہو جائے گا۔ سید نوید قمر نے معاہدے کی نقل کے حوالے سے استفسار کیا تو اس پر حنا ربانی کھر نے اپنے ریمارکس دیئے کہ کیا اگست 2015ء سے اب تک غیر قانونی آر ایل این جی سپلائی ہو رہی ہے۔

سوئی نادرن کے حکام نے کہا کہ ’’ٹی اے ون‘‘ پی ایس او اور سوئی نادرن کے درمیان ہے۔ سوئی نادرن کے حکام نے انکشاف کیا کہ ضرورت سے زیادہ ایل این جی منگوائی گئی ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ کیوں ضرورت سے زیادہ ایل این جی منگوائی گئی۔ سوئی نادرن کے حکام کا کہنا تھا کہ ’’ٹیک اور پے’’ کا معاہدہ ہے اگر ایل این جی نہیں لیتے تو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ جتنی ایل این جی درآمد کی گئی تھی میرٹ آرڈر کے تحت اٹھا نہیں سکتے تھے۔ سیکرٹری پاور ڈویژن سوئی نادرن اور سوئی سدرن نے آر ایل این جی کے لئے سٹوریج نہیں بنائی۔ پاور پلانٹس کے ساتھ بھی 66 فیصد ’’ٹیک اور پے‘‘ کا آر ایل این جی کا معاہدہ ہے۔ پاور پلانٹس کو اس سے زیادہ ایل این جی کی کھپت نہیں کرسکتے۔ سوئی نادرن کے حکام نے کہا کہ اس وقت انڈسٹری اور سی این جی کے شعبے آر ایل این جی نہیں لے رہے۔

اگر ایل این جی استعمال نہیں ہوتی تو 7 ڈالر فی ایم ایم سی ایف نقصان ہوتا ہے۔ ایل این جی کے پاور پلانٹ کو حکومت مکمل طور پر ایل این جی پر چلائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ین پاور پلانٹس کو ایل این جی پر نہیں چلانا تو قطر معاہدے کا از سرنو جائزہ لیا جائے۔ سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ جو گند کمیٹی کے سامنے دھل رہی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ جب ہم ایل این جی لا رہے تھے تو سٹوریج کا بھی سوچ لیا جاتا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ تھرکول کی صورت میں سستی بجلی ملنا شروع ہو چکی ہے۔ ایم ڈی سوئی نادرن نے کہا کہ ایل این جی کی ماہانہ ڈیمانڈ ساڑھے تین سو ایم ایم سی ایف ہے۔ مگر درآمد 1200 ایم ایم سی ہو رہی ہے۔ قطر معاہدے کو دیکھنے سمیت حکومت کو کچھ سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ وزیر پٹرولیم دونوں وزارتوں کا اجلاس منعقد کریں تاکہ یہ فریقی معاہدہ ’’ون‘‘ کا مسئلہ حل کیا جاسکے اور آر ایل این جی معاملہ کا جائزہ لیا جائے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں