ہماری تہذیب کا اظہار صرف غزل ہی میں ممکن ہے، معروف شاعر اور محقق جمیل یوسف

جمعرات 13 دسمبر 2018 23:55

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 دسمبر2018ء) ہماری تہذیب کا اظہار صرف غزل ہی میں ممکن ہے۔ ان خیالات کا اظہارجمیل یوسف نے اپنے اعزاز میں اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں کیا۔ اہل قلم سے ملیے کے سلسلے کی 35ویں تقریب میں معروف شاعر اور محقق جمیل یوسف کے ساتھ اکادمی کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی۔ جمیل یوسف نے اپنی زندگی اور ادبی سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔

تقریب میں اٴْن کے قریبی عزیز و اقارب اور دیگر اہل قلم نے جمیل یوسف کے فن وشخصیت اور ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے گفتگو اور سوالات کیے۔جمیل یوسف نے کہاکہ میں چکوال کے نزدیک ایک گاؤں لنگا میں 1938ء میں پیدا ہوا۔ میرے والدین ٹیچرز تھے مجھے ابتداء میں شاعری سے لگاؤپیدا ہوا۔

(جاری ہے)

اور 7ویں جماعت سے غزلیں کہنا شروع کیں۔ بعد میں میرے اٴْستاد نورحسین وفا نے شاعری کے حوالے سے میری رہنمائی کی، میں نے ابتدائی کلاسوں میں شاہنامہ اسلام زبانی ازبر کیا۔

بعد میں دیوان غالب کا بھی عمیق مطالعہ کیا اور بہت سے شعر یادکیے۔ اٴْنہوں نے کہا کہ کالج کے دور میں پروفیسر اشفاق حسین نے بھی میری رہنمائی کی میں نے تاریخ میں ایم اے کیا۔ سرسید احمد خان، اسلامی تاریخ اور بابر سے ظفر تک جیسے کتابیں لکھیں جو لوگوں نے بے حد پسند کیں۔اٴْنہوں نے کہا کہ غزل میری مرغوب صنف سخن ہے۔ اٴْنہوں نے کہا کہ انسان کو وہی کام کرنا چاہیے جس کا وہ شوق رکھتاہو۔فتح محمد ملک نے کہا کہ جمیل یوسف شاعری اور نثرکے ساتھ ساتھ ادبی وثقافتی سرگرمیوں کے بھی روح رواں تھے، ایک عمدہ تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہتر منتظم بھی تھے۔مسعود مفتی نے کہا کہ جمیل یوسف کی تحریروں میں تاریخی شعور ملتا ہے وہ سخن فہم اور تاریخ کا گہرا ادارک رکھتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں