دھرنا قائدین اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت

، تحریک لبیک کے رہنمائوں نے شوریٰ سے مشاورت کیلئے حکومت سے وقت مانگ لیا ، حکومت کا دھرنے کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات واپس لینے کا عندیہ ،مذاکرات میں ملات بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق ،وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ سے متعلق حکومت کا لچک کا مظاہرہ ، کمیٹی تشکیل دینے پر آمادہ ،کسی بھی وقت اہم فیصلہ متوقع

ہفتہ 18 نومبر 2017 22:26

دھرنا قائدین اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 نومبر2017ء) دھرنا قائدین اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ،دھرنا قائدین نے شوریٰ سے مشاورت کیلئے حکومت سے مزید وقت مانگ لیا ، حکومت نے دھرنے کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات واپس لینے کا عندیہ دے دیا ،مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ معاملات بات چیت سے حل کئے جائیں ،وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ سے متعلق حکومت نے موقف اختیار کیا کہ اس پر ایک کمیٹی تشکیل دی جاسکتی ہے ۔

ہفتہ کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق کی رہائش گاہ پر دھرنا قائدین اور حکومت کے مابین دھرنے کو پر امن طریقے سے ختم کرنے کیلئے مذاکرات ہوئے ۔ جن میں حکومت کی جانب سے وفاقی وزیرداخلہ احسن ، وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ، میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات شریک ہوئے جبکہ دھرنا قائدین میں ڈاکٹر شفیق امینی ، شیخ اظہر اور پیر اعجاز شیرانی شامل تھے ۔

(جاری ہے)

پیر آف گولڑہ شریف غلام نظام الدین جامی مذاکرات میں بطور ثالث شریک ہوئے ۔مذاکرات سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق کی رہائش گاہ پر ہوئے ۔مذاکرات میں پیش رفت کا امکان دکھائی دیا ۔دھرنا کمیٹی نے مذاکرات میں لچک ظاہر کی ۔ حکومت نے دھرنے کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات واپس لینے کا عندیہ دے دیا ، دھرنا قائدین فوری حکومت پیشکش کا جواب دیں گے ، حکومتی وفد کی قیادت راجہ ظفر الحق نے کی ۔

بات چیت میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ معاملات کو بات چیت سے حل کیا جائے گا ۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے کچھ گھنٹوں کے لئے مہلت طلب کی کہ وہ اپنی شوریٰ کیساتھ مشاورت کر کے تحریری مسودہ حکومت کو پیش کریں گے جس پر دوبارہ مذاکرات ہوں گے ، حکومت کی طرف سے دھرنے کو پر امن طریقے سے ختم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے ، حکومت دھرنا قائدین کے خلاف قائم کئے گئے مقدمات ختم کرنے پر غور کر ے گی ۔

وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ سے متعلق حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس پر ایک کمیٹی تشکیل دی جاسکتی ہے جب دھرنا کی شوریٰ کی جانب سے تحریری جواب موصول ہونے پر مزید بات چیت کی جائے گی ۔ دریں اثناء وزیر مملکت پیر امین الحسنات نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے، معاملات پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں، مذاکرات جاری رہیں گے ۔

ذرائع کے مطابق فریقین نے تحریری معاہدے پر رضا مندی ظاہر کردی۔ فریقین نے اپنے اپنے نکات ایک دوسرے کے حوالے کر دیئے۔ دھرنا کمیٹی نے وزیر قانون کے استعفیٰ پر لچک کا عندیہ دیا۔ واضح رہے کہ تحریک لبیک کا دھرنا 14ویں روز بھی جڑواں شہر کے سنگم فیض آباد میں جاری رہا،دھرنے میں شریک شرکاء نعرہ بازی کرتے رہے جبکہ مقررین نے جذباتی تقاریر کر کے شرکاء کے دلوں کو گرماتے رہے،دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے درمیان لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا رہا جبکہ لوگ کئی کئی کلو میٹر تک پیدل چلنے پر مجبور ہو گئے ،گزشتہ روز بھی ایک ایمبولینس کو دھرنے والوں نے راستہ نہ دینے کی وجہ سے دل کا مریض جانبر نہ ہو سکا اور زندگی کی بازی ہار گیا۔

وزیر داخلہ احسن اقبال نے مظاہرین سے مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کرنے کیلئے انتظامیہ کو آپریشن 24گھنٹے تک موخر کرنے کی ہدایت کی۔وزیر داخلہ احسن اقبال کی پیر افضل قادری سے بھی ٹیلیفونک گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے وزیر داخلہ کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم مکمل طور پر پر امن ہیں اور انتشار نہیں چاہتے، آپ کے انتشار والے بیان سے افسوس ہوا،جس پر دونوں جانب سے مذاکرات کے معاملہ حل کرنے پر رضا مندی ظاہر کی گئی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے دھرنا شرکاء سے مذاکرات کی حامی بھری،تحریک لبیک کے مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عنایت الحق شاہ کے مطابق قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے مذاکرات کیلئے پیغام بھیجا اور کہا کہ اگر مظاہرین مذاکرات کیلئے تیار ہیں تو بیٹھ کر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں، راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بل پارلیمنٹ سے پاس ہو گیا ہے اب دھرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

وزیر داخلہ احسن اقبال کی درخواست پر پیر گولڑہ شریف غلام نظام الدین جامی نے دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کئے، جس پر دھرنے کے شرکاء کا اسرار تھا کہ وزیر قانون زاہد حامد کو وزارت سے برطرف کیا جائے جبکہ حکومت کا کہناتھا کہ وہ مجرم نہیں ہیں، اگر انہیں برطرف کیا گیا تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہی اصل مجرم ہیں جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے،دھرنا قائدین نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت انہیں برطرف نہیں کر سکتی تو تحقیقات مکمل ہونے تک انہیں وزارت سے الگ کر کے چھٹیوں پر بھیجا جائے، جس پر حکومت کی طرف سے کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی گئی۔

ذرائع کے مطابق حکومت اور دھرنے شرکاء کے درمیان گزشتہ روز مذاکرات کے چار ادوار ہوئے، جس پر معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق کسی بھی وقت اہم فیصلہ متوقع ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں