مالی سال 2016-17ء میں ریلوے کی آمدن بڑھ کر 40 ارب 10کروڑ روپے تک جا پہنچی،

ساڑھے چار سال میں ریلوے نے بیل آئوٹ پیکیج نہیں لیا‘ ریلوے کی نجکاری کے حوالے سے سوچا تک نہیں‘ ریلوے میں ای ٹکٹنگ کا آغاز اور تمام ٹرینوں کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے‘ آئندہ ماہ سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور مین لائن کی اپ گریڈیشن شروع ہو جائے گی وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی سینئر صحافیوں کو ریلوے کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ

بدھ 22 نومبر 2017 17:32

مالی سال 2016-17ء میں ریلوے کی آمدن بڑھ کر 40 ارب 10کروڑ روپے تک جا پہنچی،
اسلام آباد ۔ 22 نومبر (اے پی پی) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ اگرہم آپس میں اتفاق اور اتحاد پیدا کریں تو ریلوے اربوں ڈالر کما سکتی ہے‘ ساڑھے چار سال میں ریلوے نے بیل آئوٹ پیکیج نہیں لیا‘ ریلوے کی نجکاری کے حوالے سے سوچا تک بھی نہیں‘ ای ٹکٹنگ کا آغاز اور تمام ٹرینوں کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے‘ آئندہ ماہ سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور مین لائن کی اپ گریڈیشن شروع ہو گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) میں سینئر صحافیوں کو ریلوے کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ جب موجودہ حکومت 2013ء میں برسراقتدار آئی تھی تو سابق حکومتوں کی مسلسل عدم توجہی سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے پاکستان ریلوے کا ادارہ روبہ زوال تھا، اس کی آمدن مالی سال 2012-13ء میں 18 ارب روٖپے تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس قومی ادارے کو فعال اور منافع بخش بنانے کے لئے اٹھائے گئے انقلابی اقدامات کے نتیجہ میں مالی سال 2016-17ء میں ریلوے کی آمدن بڑھ کر 40 ارب 10کروڑ روپے تک جا پہنچی اور چار سال کے قلیل عرصے میں 123 فیصد اضافہ ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنی بنیادی حکمت عملی یعنی ’’آمدن بڑھائو خرچ گھٹائو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے سال 2016-17ء کے بجٹ میں آمدنی کے دیئے گئے ہدف 36ارب کے مقابلے میں 40ارب 10کروڑ روپے حاصل کئے جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے موجودہ حکومت کی فراخدلانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں 2016-17ء ریلوے ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2015-16 ء میں اخراجات 44.217 ارب روپے تھے جو 2016-17ء میں بڑھ کر 55.011 ارب تک پہنچ گئے ہیں اور ایک سال میں 10.774 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر موجودہ حکومت کے چار سال کا موازنہ پہلے کے چار سال سے کیا جائے تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابتدائی چار سالوں میں بجٹ کا مجموعی ہدف ایک سو دو ارب 95کروڑ روپے تھا جس کے برعکس اصل آمدن 74 ارب روپے رہی جو ہدف سے 28 فیصد کم ہے۔

اس کے مقابلے میں موجودہ دور میں بجٹ کا ہدف 117 ارب 60کروڑ روپے تھا جبکہ اصلی ریسپٹنس 131 ارب 63کروڑ ہے جو ہدف سے 12 فیصد زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ریلوے کی کارکردگی کو سراہا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں بلز وصولی کی مد میں صوبوں اور وفاقی اداروں سے تقریباً 6ارب 32 کروڑ روپے حاصل کئے گئے جو اس دورانئے سے پہلے کے چار سالوں 2009-10ء سے 2012-13ء تک کی گئی وصولی سے 3ارب 71کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔

پاکستان ریلوے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت دی جانے والی مسافر ٹرینوں میں اب تک سب سے زیادہ آفر شالیمار ایکسپریس سے حاصل ہوئی جو ایک ارب 80 کروڑ روپے ہے۔پاکستان ریلوے نے مسافروں کی سہولت کے لئے ایک نیا پسنجر نظام متعارف کرایا ہے کیونکہ پرانا سسٹم تقریباً متروک ہو چکا تھا ،ساتھ ہی ای ٹکٹنگ کا آغاز بھی کردیا ہے جس سے مسافر گھر بیٹھے کریڈٹ کارڈ ‘ یوبی ایل اومنی اور موبائل اکائونٹ کے ذریعے بکنگ کروا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے کی جانب سے چلائی جانے والی گرین لائن نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں اس ٹرین میں مسافروں کی سہولت کے پیش نظر وائی فائی ‘ انٹرنیٹ ‘ ناشتہ ‘ ڈنر ‘ چائے ‘ منرل واٹر‘ اخبارات ‘سٹینڈرڈ بیڈنگ اور ٹریولرز بیگ کی فراہمی جیسے اقدامات کو بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے نے اہم گاڑیوں جعفر ایکسرپیس ‘ موسیٰ پاک ‘ خوشحال خان خٹک ایکسپریس‘ پاکستان ایکسپریس ‘ قراقرم ایکسپریس‘ کراچی ایکسپریس ‘ بزنس ایکسپریس ‘ شالیمار ایکسپریس ‘ ہزارہ ایکسپریس‘ تیز گام ‘! فرید ایکسپریس اور لاہور اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی چاروں ریل کاروں کی اپ گریڈیشن کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور مین لائن کی اپ گریڈیشن دسمبر 2017ء سے شروع ہونا متوقع ہے۔فزیبلٹی رپورٹ کی تکمیل کے بعد ٹریک انفسراسٹرکچر کا ابتدائی ڈیزائن تیار ہو چکا ہے سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور تک اپ گریڈٹ ٹریک پر مسافر گاڑیوں کی سپیڈ 120 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بڑھ جائے گی۔کراچی اور حیدر آباد کے درمیان موجودہ دو رویہ ٹریک کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے تحت ایک اضافی نیا دو رویہ ٹریک بھی بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ریلوے کی زمینوں کے معاملات میں موثر پالیسی سازی اور زیادہ رینیو حاصل کرنے کے لئے ڈائریکٹوریٹ آف لینڈ کی مکمل تنظیم نو کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے نے اپنی زمینوں کی ویلیو ایڈیشن کا کام ایک شفاف نظام کے ذریعے شروع کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبے ہماری زمینوں کا ٹائٹل آف لینڈ پاکستان ریلوے کے تحت کرے تاکہ کمرشل بنیادوں پر ہم ترقی کے عمل کو مزید تیز کریں، یہ کام خیبرپختونخوا میں مکمل ہو چکا ہے جبکہ باقی صوبوں سے روابط جاری ہیں۔

گوادر کو ریلوے نیٹ ورک سے ملانے کی غرض سے گوادر سے جیکب آباد براستہ بسیمہ ‘ نیز کوئٹہ براستہ بسیمہ ‘ مستونگ تک ٹریک بچھانے کے لئے فزیبلٹی تیار کی جارہی ہے گوادر میں زمین خریدی جا چکی ہے۔آزاد کشمیرکو ریلوے کے ساتھ ملانے کے لئے اسلام آباد سے مظفر آباد براستہ مری نئی ٹریک کی فزیبلٹی کی تکمیل کے بعد زمین حاصل کرنے کے لئے پی سی ون پلاننگ کمیشن کو بجھوا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے نے آزادی ٹرین کا آغاز کیا ہے یہ کامیاب تجربہ ہے اس سے پورا ملک یگانگت اورہم آہنگی کے پیغام اور جذبات سے مستفید ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے نے انتظامی امور میں بھی بہتری اور شفافیت لائی ہے ۔ 21ویں گریڈ کی جنرل منیجر (آپریشنز) پاکستان ریلوے کی پوسٹ کو اپ گریڈ کرکے 22ویں گریڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سینئر جنرل منیجر کی منظوری دی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ریلوے کی نجکاری کی ضرورت نہیں ہے ہم ریلوے کی نجکاری کے حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسا نظام بنا دیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی ‘ ریلوے نے کھانے کے معیار کو بہتر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے میں سفارش نہیں چلتی‘ ریلوے میں اداروں کو غیر سیاسی کرنے کی ضرورت ہے۔حلقوں کے کام وزارت میں نہیں کرنے چاہئیں ‘ ہماری ٹیم زبردست ہے۔انہوں نے کہا کہ آئندہ 12 سے 15سال تک پاکستان ریلوے دنیا کے بہترین ریلوے ریجن میں شامل ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ساڑھے چار سال میں ریلوے نے بیل آئوٹ پیکیج نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ اگر ریلوے سسٹم کو ٹھیک کرلیں تو ہم اس سے اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں