وفاقی دارالحکومت میں بھرتیوں کا طریقہ کار قانون کے مطابق ہی اختیار کیا

جائیگا،،ٹیکسٹائل شعبے کو بہت سی مراعات حاصل ہیں، یکم جولائی 2016ء سے پانچ برآمدی شعبوں بشمول ٹیکسٹائل پر سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹڈ ٹیکس رجیم کا حصہ بنایا گیا ہے، حکومت وفاقی دارالحکومت کے کنٹریکٹ اساتذہ اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ریگولر کرنے کی خواہاں ہے ،قانونی رکاوٹوں کو دور کیا جا رہا ہے، اسلام آباد اور نواحی علاقوں میں طبی سہولیات میں اضافہ، ہسپتالوں کی توسیع ،نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں،کراچی میں آپٹما کے زیر اہتمام ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ کام کر رہا ہے،سی ڈی اے میں خالی آسامیوں کو پر کرنے کے عمل میں وقت لگے گا، سینیٹ کو آگاہی راولپنڈی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور بلوچستان کے علماء کے نے بھی سینیٹ کی کارروائی دیکھی

منگل 23 جنوری 2018 20:20

وفاقی دارالحکومت میں بھرتیوں کا طریقہ کار قانون کے مطابق ہی اختیار کیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جنوری2018ء) سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں بھرتیوں کا طریقہ کار قانون کے مطابق ہی اختیار کیا جائیگا ،ٹیکسٹائل کے شعبہ کو بہت سی مراعات حاصل ہیں، یکم جولائی 2016ء سے پانچ برآمدی شعبوں بشمول ٹیکسٹائل پر سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹڈ ٹیکس رجیم کا حصہ بنایا گیا ہے،حکومت وفاقی دارالحکومت کے کنٹریکٹ اساتذہ اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ریگولر کرنے کی خواہاں ہے اس حوالے سے قانونی رکاوٹوں کو دور کیا جا رہا ہے، اسلام آباد اور نواحی علاقوں میں طبی سہولیات میں اضافہ، ہسپتالوں کی توسیع اور نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں،کراچی میں آپٹما کے زیر اہتمام ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ کام کر رہا ہے،سی ڈی اے میں خالی اسامیوں کو پُر کیا جائے گا ، اس عمل میں وقت لگے گا۔

(جاری ہے)

منگل کو ہونیوالے اجلاس میں وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے سینیٹ کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں بھرتیوں کے لئے جو طریقہ کار قانون کے مطابق ہوگا، وہی اختیار کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قواعد کے تحت اسلام آباد سے کسی سرکاری ملازم کو باہر نہیں بھجوایا جا سکتا۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل بمعہ بی ایڈ اور ایم ایڈ ڈگری کی حامل خواتین کو تعلیمی اداروں میں بھرتی کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔

ایف پی ایس سی کے ذریعے اشتہار دے کر براہ راست ریگولر بھرتی کرتے وقت اعلیٰ ڈگری کو ترجیح دی جاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت وفاقی دارالحکومت کے کنٹریکٹ اساتذہ اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ریگولر کرنے کی خواہاں ہے، اس سلسلے میں قانونی رکاوٹوں کو دور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل جنرل ہسپتال اسلام آباد میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے افراد کی تقرریوں میں توسیع کا معاملہ این او سی کے اجراء کے لئے ایف پی ایس سی کو بھیجا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء میں 18 لوگوں کو ریگولر کر دیا گیا۔ کچھ لوگ رہ گئے تھے جن کی مدت ملازمت پوری نہیں تھی۔ بعض عدالتوں کے فیصلوں کی وجہ سے ان کو ریگولرائز کرنا ممکن نہ تھا۔ ہم اساتذہ اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ریگولر کرنا چاہتے ہیں اس لئے کمیٹیاں بھی بنیں۔ انہوں نے کہا کہ 15 ہزار ٹیچرز ریگولر ہیں اور تنخواہ لے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر 15 ہزار ریگولر ٹیچرز کو تنخواہ دے رہے ہیں تو 800 کنٹریکٹ اساتذہ کو تنخواہ دینے میں ہمیں کیا مسئلہ ہوسکتا ہے ۔

یہ بہترین کام کر رہے ہیں، تعلیمی اداروں کو ان کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اربوں روپے سکولوں پر خرچ کر رہے ہیں تو ان کو پیسے دینے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ان کو ریگولر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے ان کو ریگولر کریں گے۔ اس قانونی راستے کو نکالنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں پارٹی قائد نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی احکامات دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کنٹریکٹ ملازمین کے لئے بھی کوٹہ 100 فیصد فالو کیا جاتا ہے۔ ماضی میں ڈیلی ویجز کو کس طرح بھرتی کیا گیا۔ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا لیکن ڈیلی ویجز بھرتی میں کوٹہ نہیں ہوتا۔وزیر مملکت نے بتایا کہ حکومت وفاقی دارالحکومت اور نواحی علاقوں میں طبی سہولیات میں اضافے اور ان کو بہتر بنانے کیلئے ہسپتالوں کو توسیع دے رہی ہے اور نئے ہسپتال بھی بنائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت ہماری ترجیح ہے۔ پولی کلینک کو 1100 بیڈز تک توسیع کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں فنڈز بھی مختص کئے گئے ہیں۔ عدالت کا حکم امتناعی نہ ہوتا تو کام شروع ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے میں خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے گا تاہم اس عمل میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے میں 5 ہزار سے زائد آسامیاں خالی ہیں۔

ان میں بلوچستان کی 150 آسامیاں بھی ہیں۔ یہ آسامیاں پُر کرنے میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے میں 19 ہزار 453 منظور شدہ اسامیاں ہیں۔ اس وقت 14 ہزار 410 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ان میں باقاعدہ ملازمین کی تعداد 13 ہزار 701 ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 ہزار 43 آسامیاں خالی ہیں۔ حال ہی میں سی ڈی اے نے 113 مختلف درجوں کی آسامیاں مشتہر کی ہیں اور شارٹ لسٹ امیدواروں کے انٹرویوز کا عمل جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ شارٹ لسٹنگ او ٹی ایس ٹیسٹ نتائج کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ کابینہ ڈویژن سے این او سی کے حصول کی کارروائی زیر عمل ہے جس کے ذریعے 242 خالی اسامیوں کو پُر کیا جائے گا۔وفاقی وزیر تجارت پرویز ملک نے کہا ہے کہ پاکستان نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو بہت سی مراعات دی ہیں۔ یکم جولائی 2016ء سے پانچ برآمدی شعبوں بشمول ٹیکسٹائل پر سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹڈ ٹیکس رجیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سال 2016-17ء میں ڈرا بیک آف لوکل ٹیکسز کی موجودہ سکیم جاری ہے۔ ٹیکنالوجی ایگریڈیشن فنڈ کی سکیم یکم جولائی 2016ء سے میسر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد کی سہولت جاری ہے جن ممالک میں ٹیکسٹائل ویلیو چین میں تقابلی فائدے نہیں ہیں وہ مختلف مراعات دیتے ہیں۔وزیر تجارت نے کہا کہ ہم ویلیو ایڈڈ پروڈکشن کی طرف جانے کے لئے کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپٹما کے زیر اہتمام ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ کام کر رہا ہے۔ ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان (پی آئی پی) آپٹما کی زیر سرپرستی 1994ء کو وجود میں آیا جس کا بنیادی مقصد ٹیکسٹائل سائنسز کے میدان میں پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کر کے ان کی عملی صلاحیت کو نکھارنا ہے۔ یہ عمارت 50 ایکڑ پر محیط ہے اور کراچی میں کام کر رہی ہے۔ اس ادارے میں 106 افراد ملازم ہیں جبکہ 1217 طلبہ یہاں زیر تعلیم رہے ہیں۔

اجلاس کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے ڈاکٹر طارق فضل چودھری سے کہا کہ وہ ارکان کے سوالوں کے تفصیلی جوابات دیں جس پر وزیر مملکت کیڈ نے کہا کہ میں وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر بات کرتا ہوں ، میری خواہش ہوتی ہے کہ ارکان کے سوالوں کا تفصیلی جواب دوں ۔ بعد ازاں انہوں نے ارکان کے سوالات کے تفصیلی جواب دیئے تو ڈپٹی چیئرمین نے انہیں مزید بولنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ نے کافی تفصیلی جوابات دے دیئے ہیں۔

قبل ازیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ شفقت نذیر ایڈووکیٹ کی قیادت میں ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کا وفد اور بلوچستان سے علماء کا وفد سینیٹ کے اجلاس کی کارروائی کے مشاہدے کیلئے مہمانوں کی گیلری میں موجود ہیں، ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں