71یوم آزادی کی تقریبات :ملک بھر میں توپوں کی سلامی‘ تحریک پاکستان کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا

جناح کنونشن سینٹراسلام آباد میں یوم آزادی کی مرکزی تقریب ‘ صدرممنون حسین اورنگراں وزیراعظم ناصرالملک‘مسلح افواج کے سربراہان‘چیئرمین سینٹ‘سفیروں اور اہم شخصیات کی شرکت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 14 اگست 2018 11:30

71یوم آزادی کی تقریبات :ملک بھر میں توپوں کی سلامی‘ تحریک پاکستان کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 اگست۔2018ء) ملک بھرمیں یومِ آزادی روایتی جوش وخروش اورجذبے سے منایا جارہاہے۔ ملک بھر میں سرکاری عمارتوں، سڑکوں اورراستوں کو قومی پرچموں سے سجایا گیا ہے۔ملک بھر میں جشن آزادی بھرپور قومی جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، سرکاری اور نجی عمارتوں کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔یوم آزادی کے دن کا آغاز دارالحکومت اسلام آباد میں توپوں کی سلامی ہوا، وفاقی دارالحکومت میں 31،صوبوں میں 21،21 توپوں کی سلامی دی گئی‘ مساجد میں ملکی سلامتی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی گئیں۔

ملک بھر میں صبح 8 بجکر 58 منٹ پرسائرن بجائے گئے اور تحریک پاکستان کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔جناح کنونشن سینٹراسلام آباد میں یوم آزادی کی مرکزی تقریب منعقد ہوئی جس میں صدرممنون حسین اورنگراں وزیراعظم ناصرالملک نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

تقریب میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، اسپیکرقومی اسمبلی ایازصادق، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اورغیرملکی سفیروں سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔

یوم آزادی کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدرممنون حسین نے کہا کہ پاکستان ان تصورات کی مجسم تصویرہے جس کی آغوش میں ہم ہرلمحہ آزادی کا لطف اٹھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یوم آزادی پرسبز ہلالی پرچم مزید بلند کرنے لگن بڑھ جاتی ہے، آج حقیقی جشن کا دن ہے اورمیں پوری قوم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدرمملکت نے کہا کہ جشن آزادی اور عام انتخابات کے درمیان پیغام پوشیدہ ہے، یہ دن یاد دہانی ہے پاکستان کی قسمت کے فیصلے ووٹ کی پرچی سے ہوں گے۔

انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کواپنے وجود سے اب تک بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ہم ابھی تک مکمل طور پر منزل تک نہیں پہنچ سکے۔صدرممنون حسین نے کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ملک وملت کی بہتری اور ترقی کے جذبے اور نیک نیتوں کے ساتھ کاروبار مملکت سنبھالنے والوں کی رہنمائی فرمائے اور جذبہ عمل بڑھا دے۔انہوں نے واضح کیا کہ قومی ایام اسی لیے منائے جاتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو قومی مقاصد اور ان کے حصول کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے آگاہ کیا جاسکے۔

کراچی میں مزارقائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پ±روقار تقریب منعقد ہوئی جہاں پاک بحریہ کے کیڈٹس نے مزارقائد پرگارڈزکے فرائض سنبھال لیے‘تقریب کے مہمان خصوصی کموڈور وقار محمد تھے۔لاہورمیں مزارِ اقبال پر ہونے والی خصوصی تقریب میں پاک فوج کے دستے نے مزار اقبال پر گارڈز کے فرائض سنبھالےاس موقع پر تقریب کے مہمان خصوصی جی اوسی لاہورمیجرجنرل شاہد محمود نے نے آرمی چیف کی جانب سے مزاراقبال پرپھول چڑھائے۔

واضح رہے کہ سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگا رنگ تقاریب،تقاریرکا اہتمام بھی کیا گیا ہے، گھروں میں بچوں،جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش توقابل دید ہے۔یوم آزادی کے سلسلہ میں گزشتہ رات 12 بجتے ہی مختلف شہروں سے آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کیا، کراچی میں مزار قائد اور بحریہ ٹاﺅن میں ہونے والے مظاہرے میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ملک بھر میں یوم آزادی کے مناسبت سے سیمینارز اور نمائشوں کا انعقاد کیا گیا ہے ۔یوم آزادی کے موقع پرصدرممنون حسین نے اپنے پیغام میں کہا کہ مملکت پاکستان اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جنت ہے۔صدرمملکت نے کہا کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل اور دیگر پیچدہ معاملات پرقائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار پرحقیقی معنوں میں عمل درآمد کے ذریعے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔

نگراں وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک نے یوم آزادی کے موقع پراپنے پیغام میں کہا کہ 14 اگست ہمیں اپنے آباﺅ اجداد کی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ اور الگ وطن کے حصول کی جمہوری جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جہاں وہ مذہبی، ثقافتی اور سماجی اقدار کے مطابق اپنی زندگیاں بسرکرسکیں۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ قائداعظم کے اتحاد، ایمان اور نظم وضبط کے سنہری اصولوں پرعملدرآمد کے غیرمتزلزل عزم سے ہمیں اپنے موجودہ مسائل پرقابو پانے اور پاکستان کو خود کفیل اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم اور خوشحال ملک بنانے میں مدد ملے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور نامز وزیراعظم عمران خان نے قوم کو 71ویں یوم آزادی کی مبارک باد دی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس یوم آزادی پر میرے دل میں امید کا ایک عظیم چراغ روشن ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ اقربا پروری اور بدعنوانی کے باعث ملکی معیشت کو سنگین بحران کا سامناضرور ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے اتحاد کا دامن تھامے رکھا تو اپنی منزل پالیں گے اور پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنے گا۔

چیئرمین تحریک انصاف نے ایک تصویر بھی شیئر کی ہے اور بتایا ہے کہ لندن میں 1932 میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنس کی تاریخی تصویر میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کیساتھ میرے خالو ڈاکٹر جہانگیر خان اور میری والدہ کے چچا زمان خان (جن کے نام سے زمان پارک منسوب ہے) بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اپوزیشن راہنماﺅں نے یوم آزادی پر اپنے پیغامات میں پاکستان کو بہترین بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تمام اہل وطن کو یوم آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امن کے لیے دہشت گردی، انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔انہوں نے کہا کہ بطور قوم بنیادی اقدار کی حفاظت اور انہیں فروغ دینا ہوگا، جمہوری نظام اور دستور پسندی قوم کو مضبوط کر سکتی ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی پاکستان کو مثالی جمہوری ملک بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

چند نہیں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے یکساں مواقع میسر کرنا ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ( ن) کے صدر شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم راستے سے بھٹک گئے، غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم اسمبلی میں بھرپور کردار ادا کریں گے، ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔نہ صرف مملکت خداد پاکستان میں یوم آزادی اور دیگر اہم ریاستی و حکومتی سرکاری دنوں کے موقع پر 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہوتا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین، بھارت اور کینیڈا سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اہم ریاستی و حکومتی دنوں کے آغاز پر 21 توپوں کی سلامی ضرور دی جاتی ہے۔

لیکن آخر سلامی کے لیے 21 توپیں ہیں کیوں، یہ 20 یا 22 بھی ہوسکتی تھیں، یا ان کی تعداد ایک درجن تک بھی محدود ہوسکتی تھی؟اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے گی تو کوئی حتمی اور مصدقہ جواب نہیں ملے گا، بس روایات اور واقعات کی روشنی میں معاملے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نظر آئے گی۔ایک انٹرنیشنل جریدے کے مطابق توپوں کو چلانے کی تاریخ پہلے پہل قرون وسطیٰ کے زمانے میں ا±س وقت ہوئی، جب دنیا میں جنگیں یا ایک دوسرے سے لڑنا معمول تھا۔

ا±س وقت توپوں کو چلانے کا کام نہ صرف فوجیں کرتی تھیں بلکہ عام اور بیوپاری افراد بھی توپیں چلایا کرتے تھے۔تقریباً 14 ویں صدی میں پہلی بار توپوں کو چلانے کی روایت اس وقت شروع ہوئی، جب کوئی فوج بحری راستے کے ذریعے دوسرے ملک جاتی تو ساحل پر پہنچتے ہی توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیتی کہ ان کا مقصد لڑنا یا جنگ کرنا نہیں۔افواج کی اس روایت کو دیکھتے ہوئے ا±س وقت کے بیوپاری اور کاروباری افراد نے بھی ایک سے دوسرے ملک سفر کرنے کے دوران توپوں کو چلانے کا کام شروع کیا۔

روایات کے مطابق جب بھی کوئی بیوپاری کسی دوسرے ملک پہنچتا یا کوئی فوج کسی دوسرے ملک کے ساحل سمندر پہنچتی تو توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیا جاتا کہ وہ لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یہ فائر امن کا پیغام ہیں۔چودہویں صدی تک فوج اور بیوپاریوں کی جانب سے 7 توپوں کے فائر کیے جاتے تھے اور اس کا بھی کوئی واضح سبب موجود نہیں کہ آخر 7 فائر ہی کیوں کیے جاتے تھے۔

غیر مستد تاریخ اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے دنیا میں ترقی ہوتی گئی اور بڑے بحری جہاز بنتے گئے، ویسے ہی توپوں کے فائر کرنے کی تعداد بھی بڑھتی گئی، جو 21 تک آ پہنچی۔یوں تقریباً 3 صدیوں تک توپیں چلانے کا کام ایسے ہی چلتا رہا، لیکن پھر 17 ویں صدی میں پہلی بار برطانوی فوج نے توپوں کو سرکاری سطح پر چلانے کا کام شروع کیا۔برطانوی فوج نے پہلی بار 1730 میں توپوں کو شاہی خاندان کے اعزاز کے لیے چلایا اور ممکنہ طور پر اسی واقعے کے بعد دنیا بھر میں سلامی اور سرکاری خوشی منانے کے لیے 21 توپوں کی سلامی کا رواج پڑا۔

جلد ہی 21 توپوں کی سلامی نے اہمیت اختیار کرلی اور برطانوی فوج نے 18 ویں صدی کے آغاز تک برطانوی شاہی خاندان کی عزت افزائی، فوج کے اعلیٰ سربراہان اور اہم سرکاری دنوں پر توپوں کی سلامی کو لازمی قرار دیا۔اٹھارہویں صدی توپوں کی سلامی کے لیے اہم ثابت ہوئی ابتدائی 20 سالوں میں امریکا نے بھی اسے سرکاری طور پر نافذ کردیا 1810 میں امریکا کی فوج اور دفاع کے ادارے نے توپوں کی سلامی کو پہلی بار اپنایا۔

یوں پہلی بار امریکا میں 1842 میں صدر مملکت کے لیے 21 توپوں کی سلامی لازمی قرار دی اور اگلے 40 سال بعد امریکا نے اس سلامی کو قومی سلامی کے طور پر نافذ کیا۔اٹھارہویں سے انیسویں صدی کے شروع ہونے تک امریکا و برطانیہ ایک دوسرے کے وفود کو توپوں کی سلامی دیتے رہے اور 1875 میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب سے دی جانے والی توپوں کی سلامی کو سرکاری طور پر قبول کیا۔

انیسویں صدی کے بعد دنیا کے طاقتور ممالک نے مختلف براعظموں کے ممالک پر قبضہ کرکے اپنی کالونیاں بنادیں، جہاں وہ اپنے رعب اور دبدبے کو برقرار رکھنے کے لیے توپوں کی سلامی کو بھی استعمال کرتے رہے۔اپنے قابض ممالک کی دیکھا دیکھی، چھوٹے چھوٹے ممالک اور خود مختار نوابی اور بادشاہی ریاستوں نے بھی توپوں کی سلامی کو سرکاری اعزاز اور عزت کے درجے کے طور پر شامل کرلیا۔

تقسیم برصغیر سے قبل برطانوی ہندوستان کی مختلف نوابی ریاستیں جن میں بہاولپور، حیدرآباد دکن، میسور، خیرپور، قلات، بھوپال، اندور، کچھ، جودھ پور اور پٹیالہ شامل ہیں، نے بھی توپوں کی سلامی کو اعزاز و عزت کے طور پر لازمی قرار دیا اور ریاستوں کے شہزادوں اور بادشاہوں سمیت دیگر ریاستوں سے آنے والے معزز مہمانوں کو توپوں کی سلامی دی جانے لگی۔

اٹھارہویں صدی کے بعد مسلسل تمام ممالک اور ریاستوں میں 21 توپوں کی ہی سلامی دی جانے لگی اور ہر کسی نے سوچ بچار کیے بغیر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اسے اپنا لیا۔اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے یوم آزادی، اہم ریاستی و حکومتی دنوں پر توپوں کے فائر کرتے ہیں، جب کہ تمام ممالک ریاست اور حکومت کے سربراہ کی شان سمیت دیگر ریاستوں اور ممالک کے مہمانوں کو عزت دینے کے طور پر بھی 21 توپوں کی سلامی دیتے ہیں۔

پاکستان بھی اپنے یوم آزادی کا آغاز 21 توپوں کی سلامی سے کرتا ہے، لیکن ملک میں اس دن کے علاوہ بھی توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔پاکستان میں یوم آزادی، یوم پاکستان، یوم دفاع اور 12 ربیع الاول پر بھی 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔پاکستان میں صدر مملکت یا سربراہ حکومت کو بھی اعزاز کے طور 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے، جب کہ زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں اعلیٰ خدمات سر انجام دینے والے سماجی کارکنان یا دیگر ممالک کے مہمانوں کو بھی اعزاز بخشنے کے طور پر 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں