جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیئے

میں بھی عام شہری ہوں‘انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں‘فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے‘درخواست کی سماعت پر فیصلہ آنے تک جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے،جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا درخواست میں موقف

جمعہ 17 اگست 2018 18:07

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیئے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اگست2018ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیئے۔سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف ریفرنس کی کارروائی ستمبر کے ابتدا میں دوبارہ ہونے کا امکان ہے مگر اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز نے جوڈیشل کونسل کے احکامات سپریم کورٹ میں چیلنج کردیے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ مجھے فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے اور ساتھ ہی استدعا کی کہ جب تک اس درخواست کی سماعت پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے عدالت عظمیٰ میں دی گئی درخواست میں مزید کہا کہ ججز کی رہائش گاہوں پر اخراجات کی تفصیلات سے متعلق درخواست دی گئی تھی جس کی سماعت جلد بازی میں مکمل کی گئی۔

(جاری ہے)

انہوں نے درخواست میں بتایا کہ 30 جولائی کو ان کی درخواست خارج کر دی گئی تھی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ 'میں بھی عام شہری ہوں اس لیے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں،یاد رہے کہ گزشتہ سال جسٹس شوکت عزیز نے سپریم جوڈیشل کونسل (اسی جے سی) میں زیرالتوا ریفرنسز کے حوالے سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔7 نومبر 2017 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیق کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔

سماعت کے دوران بینچ میں شامل ججز نے ریمارکس دیے تھے کہ ٹکڑوں کے بجائے مقدمے کو مکمل سننا چاہتے ہیں، یہ کوئی ایسا مقدمہ نہیں جس میں حکم امتناعی دے کر مقدمے کو دفن کردیا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقدمہ ہے، اس میں قانون کی شقوں کو چیلنج کیا گیا ہے، ہم آزاد عدلیہ ہیں، ہم مقدمے کو لٹکانے کے بجائے جلد سن کر فیصلہ دینا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف سرکاری رہائشگاہ پر خلاف ضابطہ تزین آرائش کا الزام ہے۔سپریم جودیشل کونسل نے 22 فروری 2018 کو ایک اور کیس میں ملک کے اہم ادارے کے حوالے سے غیر ضروری بیان دینے پر بھی دائر ایک ریفرنس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جاری ہونے والے شوکاز نوٹس میں بتایا گیا تھا کہ ان کا تبصرہ بادی النظر میں اہم آئینی ادارے کے احترام کو کمزور کرتا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف یہ شو کاز نوٹس ایڈووکیٹ کلثوم خلیق کے توسط سے رکنِ قومی اسمبلی جمشید دستی کی جانب سے جمع کرائے گئے ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔بعد ازاں 7 جولائی 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان کیخلاف کرپشن کے حوالے سے دائر ریفرنس کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کی اجازت دی تھی جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے گزشتہ حکم پر نظر ثانی کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اپنے خلاف ریفرنس کی سماعت کٴْھلی عدالت میں کرنے کی درخواست منظور کی تھی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے حکم کو چیلنج کیا تھا جس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے حکم دیا کہ مذکورہ جج ان کیمرا کارروائی کے حق سے دستبردار ہوتا ہے تو ایس جے سی ایسے جج کیخلاف کارروائی کھلی عدالت کر سکتی ہے۔سپریم کورٹ نے کونسل کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کی ہدایت بھی کی تھی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں