مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا فیصلہ نہیں ہوا، حکومت

حتمی فیصلہ قومی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیکر کیا جائیگا،سیاسی جماعتیں مسئلے کے حل کیلئے تجاویز پیش کریں،شیریں مزاری ماضی کی حکومتوں نے اس مسئلہ پر کوئی کام نہیں کیا، موجودہ حکومت مہاجرین کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ایوان میں پیش کر دے گی ، قوم سے کوئی چیز بھی خفیہ نہیں رکھے گی، ماضی میں حکومتوں نے مہاجرین کو واپس وطن نہ بھیجنے بارے اقوام متحدہ کے ساتھ آٹھ معاہدے کر رکھے ہیں،توجہ دلائو نوٹس پر اظہار خیال

منگل 25 ستمبر 2018 16:46

مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا فیصلہ نہیں ہوا، حکومت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 ستمبر2018ء) حکومت نے قومی اسمبلی میں یقین دہانی کرائی ہے کہ مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا فیصلہ نہیں ہوا ہے اس مسئلہ پر تمام قومی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا جائے گا جبکہ قومی اسمبلی میں اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کرائی جائے گی۔ تاہم سیاسی جماعتیں اس مسئلہ پر تنقید کے ساتھ ساتھ مسئلہ کے حل بھی پیش کریں۔

قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے انسانی حقوق کی بنیاد پر مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کی تھی تاہم یہ فیصلہ قومی سیاسی قیادت کی مشاورت سے ہو گا ۔ انہوںنے کہ اکہ ماضی کی حکومتوں نے اس مسئلہ پر کوئی کام نہیں کیا اور سابقہ حکومتوں نے مہاجرین کا ڈیٹا بھی اکٹھا نہیں کیا ۔

(جاری ہے)

موجودہ حکومت مہاجرین کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ایوان میں پیش کر دے گی اور قوم سے کوئی چیز بھی اخفاء نہیں رکھے گی۔ ماضی میں حکومتوں نے مہاجرین کو واپس وطن نہ بھیجنے بارے اقوام متحدہ کے ساتھ آٹھ معائدے کر رکھے ہیں۔ حکومت نے یہ پالیسی بیان اپوزیشن کے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں دیا یہ توجہ دلائو نوٹس اختر مینگل ، نفیسہ شاہ ، ربانی کھر ، سید رفیع اور آغا حسن بلوچ نے پیش کیا تھا ۔

اختر مینگل نے کہا کہ ماضی میں سرحدی چوکیوں پر تعینات اہلکاروں نے پانچ سو روپے رشوت لے کر غیر ملکیوں کو پاکستان داخلہ کی اجازت دیتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کمیٹیوں کو ارسال کرنے کی بجائے قومی اسمبلی میں کھلی بحث کرائی جائے ۔انہوںنے کہا ہم انسانی حقوق کی بنیاد پر اپنا تشخص اور شناخت کھو نہیں سکتے ۔ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ شہریت کے حوالے سے قانونی ایشوز ہیں ۔

اس میں سب سے پہلے پارلیمنٹری کمیٹی میں بات کر کے پھر اس پر بات ہو گی۔ 1951 ء کا شہریت کا ایکٹ ہے جو ہر کسی کو حق دیتا ہے کہ وہ پاکستان کا شری بنے جس کی پیدائش پاکستان میں ہو ۔ ہم نے مہاجرین کا معاہدے پر دستخط نہیں کئے اور اب اس پر دستخط کرتے ہیں تو کیا صورت حال ہو گی ۔ کسی کو زبردستی کسی کو ملک سے سے بھیج سکتے ۔ اسلامی روایات کے تحت اگر آپ کے پاس مہاجرین آتے ہیں تو آپ نے ان کو رہنے کا حق دینا ہو گا۔

اس پر تمام پارٹیوں کو اعتماد میں لیں گے ۔ ایک افغان مہاجرین اور دوسرے بنگالی ہیں ان تمام ایشوز کو مل کر حل کرنا ہوگا ۔حنا ربانی کھر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹیوں کی مشاورت کے بغیر حکومت نے مہاجرین سے وعدہ کر لیا ہے کیا حکومت پاکستان کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کر لیا ہے اس پر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ وزیر اعظم نے صرف انسانیت کی بنیاد پر اعلان کیا ۔

وزیر اعظم نے اس حوالے سے کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دیا اور نہ ہی اس پر کوئی یوٹرن لیا ہے ۔ ہم اس حوالے سے ایک پالیسی بنائیں گے اس پر عمل کیا جائے ۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے بیان دیا کہ ہم مہاجرین کو شہریت دیں گے اور اب کمیٹی کیوں بنائی جا رہی ہے یہ ایک اور یوٹرن پر ایک اور یوٹرن ہے ۔کیا وزیر اعظم کو کراچی کے مسائل کیا ہیں وہاں 10 سے 15 سال وسائل پر جنگ چلی ہے ۔

اندرونی مہاجروں کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا ۔یہ لوگ کراچی میں جا کر آباد ہوئے ہیں ۔ اپنے لوگوں کو حقوق نہیں مل رہے اور مہاجر کو حق مل رہے ہیں ۔ سعودی عرب میں کبھی اس کو شہریت نہیں ملتی ۔ وزیر اعظم ہمیں بتائیں کتنے مہاجرین ہیں ۔ بنگالیوں ، بہاریوں کا ڈیٹا بتا دیں ہم نے قانون بنایا ہے سب سے پہلے اپنے شہری پھر دوسروں کو شہریت ۔ سعودی عرب بھیک مانگنے گئے کتنے پیسے ملے اس پر شیریں مزاری نے کہاکہ کتنے سالوں سے پیپلزپارٹی نے حکومت کی ہے اس وقت ان کو کراچی کا درد کیوں نہیں ہوا اچھی بات ہے کہ آج ان کو کراچی کا خیال آیا ۔

کتنے سالوں سے مہاجرین کراچی میں آباد ہیں انہوں نے کتنا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے ۔ گزشتہ حکومتوں نے ایچ سی آر سے 8 معاہدے کئے ہیں کہ ہم مہاجرین کو واپس نہیں کریں گے ۔ ہم مدینہ کی بات کرتے ہیں سعودی عرب کی بات نہیں کرتے ۔ وزیر اعظم نے اختر مینگل سے وعدہ کیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔ اختر مینگل نے کہا کہ اگر قومی مسئلہ ہے تو اس پر قومی اسمبلی میں بحث ہونی چاہئے پہلے کتنے مسئلے کمیٹیوں نے حل کئے ہیں پہلے اسمبلی میں بحث ہو پھر دیکھا جائے کتنے مہاجرین ہیں آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ جو غیر قانونی ملک میں آتا ہے اس پر جرمانہ کتنا ہوتا ہے صرف پانچ سو روپے ہوتا ہے ہمیں انسان سمجھا جاتا تو پھر ہم انسانیت پر بات کرتے ۔

آج ہمارے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے جتنے رجسٹرڈ ہوئے اتنے ہی غیر رجسٹرڈ ہیں ۔ مہاجرین بہت بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں افغانستان سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں ہماری اپنی قومی شناخت ہے اس ایشو پر تمام پارٹیاں اپنی رائے دیں اور بحث ہو ۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بحث ہوئی ہے لیکن حل کوئی نہیں ہوتا کیا ہم نے کونسے قوانین بنائے ہین اس حوالے سے گزشتہ حکومتوں نے کوئی ڈیٹا تیار نہیں کیا ہم کریں گے ۔اب پاکستان میں پہلی مرتبہ ہمارے پاس مہاجرین کا ڈیٹا ہو گا ۔ روز بچے پیدا ہو رہے ہیں لیکن ان کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہو رہی ہے ۔ آغاز حسن بلوچ نے کہا کہ افغان مہاجرین کا ایشو بہت اہم ہے اس پر اسمبلی میں بحث ہونی چاہئے ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں