نوازشریف جب مودی کی حلف برداری میں گئے تو پہلی مرتبہ وزیر اعظم پاکستان حریت کانفرنس کے وفد نہیں ملے ،ْ شیریں مزاری

موجودہ حکومت آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیر اہے ،ْ وزیر اعظم واضح کر چکے ہیں ،ْہم مسلم ممالک کی جنگوں میں نہیں پڑیں گے ،ْتنازعات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے ،ْبلوچستان اور گوادر کی ترقی کے ثمرات عام بلوچ تک پہنچائیں گے‘ لاپتہ افراد کے معاملے کو اتفاق رائے سے حل کریں گے ،ْ اسمبلی میں اظہار خیال 8ء اور 2013ء میں قرضوں کی شرح بڑھ کر ایک ارب سے 13 ہزار ارب تھی ،ْ 2015ء تک 28 ہزار ارب پہنچی ،ْ عندلیب عباس

بدھ 26 ستمبر 2018 19:39

نوازشریف جب مودی کی حلف برداری میں گئے تو پہلی مرتبہ وزیر اعظم پاکستان حریت کانفرنس کے وفد نہیں ملے ،ْ شیریں مزاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 ستمبر2018ء) وفاقی وزیرانسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہاہے کہ سابق وزیر اعظم نوازشریف جب مودی کی حلف برداری میں گئے تو پہلی مرتبہ وزیر اعظم پاکستان حریت کانفرنس کے وفد نہیں ملے ،ْ موجودہ حکومت آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیر اہے ،ْ وزیر اعظم واضح کر چکے ہیں ،ْہم مسلم ممالک کی جنگوں میں نہیں پڑیں گے ،ْتنازعات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے ،ْبلوچستان اور گوادر کی ترقی کے ثمرات عام بلوچ تک پہنچائیں گے‘ لاپتہ افراد کے معاملے کو اتفاق رائے سے حل کریں گے ۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ محمد آصف کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ خواجہ آصف نے ایوان میں وزیر خزانہ اسد عمر کے خاندان کو نشانہ بنایا جو افسوسناک ہے‘ خواجہ آصف کا یہ طرز عمل غلط ہے، ان کے الفاظ کو ریکارڈ سے حذف کیا جائے‘ ہمیں اس طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس اسمبلی کواس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ اب خارجہ پالیسی بن رہی ہے اور اس پر بحث بھی ہو رہی ہے۔

گزشتہ حکومت نے چار سالوں سے وزیر خارجہ کا تقرر نہیں کیا ،ْکبھی کبھی کوئی قرارداد آتی تھی اور کچھ عرصہ بعد حکومت اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ،ْاب خواجہ آصف کو یاد آیا کہ خارجہ پالیسی پر ایوان میں بحث کرنی چاہیے۔ پانچ سال تک ان کو توفیق نہیں ہوئی‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پاکستان کے حوالے سے بیان دیا تو حکومت کی طرف سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا‘ مسلم لیگ (ن)کو پانچ سال بعد یاد آیا کہ خارجہ پالیسی ہونی چاہیے‘ اس پر مسلم لیگ کو مبارکباد دینی چاہیے ۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی میں جب ہم نے بین الاقوامی معاہدوں کو اسمبلی میں پیش کرنے کی تجویز پیش کی تو اسے اسے رد کردیا گیا۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر مارچ 2017ء میں حکومت نے آئی سی جے کو خط لکھا کہ ہم آپ کو آزادانہ جیورسڈکشن نہیں دیں گے‘ خط چلا گیا۔ مشکل سے مہینہ گزرا تھا کہ بھارت آئی سی جے میں گیا اور ہم نے آئی سی جے کی جیورسڈکشن قبول کرلی۔

یہ ایک غلطی تھی ،ْدوسری غلطی یہ کی گئی کہ ہمارے کہنے کے باوجود متبادل جج کی تعیناتی نہیں کی گئی۔ ہم نے اس پر اعتراضات کئے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ہم ایسے کیس میں پھنس گئے جس کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے کشمیر کی بات بھی کی ہے لیکن وہ بھول گئے کہ جب میاں نواز شریف نریندر مودی کی حلف برداری تقریب میں گئے تھے تو پہلی بار ایسا ہوا جب وزیراعظم پاکستان حریت کانفرنس کے وفد سے نہیں ملے۔

کشمیر کو انہوں نے کیا اہمیت دی ہے یہ سب کو پتہ ہے۔ ہم کئی سالوں تک پوچھتے رہے کہ کشمیر کمیٹی کے اخراجات اور کامیابیوں کا بتایا جائے۔ پچھلی حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے جو خارجہ پالیسی بنائی ہے وہ عملی ہے۔ وزیراعظم نے سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ کیا۔ یہ دورے کامیاب رہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہم مسلم ممالک کی جنگوں میں نہیں پڑیں گے اور ان کے تنازعات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

اسی طرح ایران کے وزیر خارجہ کا دورہ بھی اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورے کے دوران ایران میں پاکستانی قیدیوں کے حوالے سے بات ہوئی اور ایران نے پیغام بھیجا کہ ہم پاکستانی قیدیوں کے مسائل حل کریں گے۔ اس سے واضح ہے کہ دنیا اب ہمیں اہمیت دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلی بار برطانوی حکومت نے منی لانڈرنگ اور منظم جرائم کے ایشو پر ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں بدانتظامی کی بات بھی ہوئی ہے اس حوالے سے ان سے پوچھا جائے جو گزشتہ کئی برسوں سے کراچی میں برسراقتدار ہیں۔انہوں نے کہا کہ بنگالی اور بہاریوں کی سٹیزن شپ کا مسئلہ بہت پرانا ہے‘ کسی میں ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس معاملے کو حل کریں۔ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ مشاورت کرکے اس معاملے کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی جو پاکستانی شہری ہیں اور جن کو شہریت نہیں ملی‘ ہم ان کو کس بنیاد پر پاکستانی نہیں مانتے ،ْپناہ گزینوں کے معاملے پر بہت جلد ایوان میں ہم اس پر ڈیٹا فراہم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے ڈیموں پر بھی بات کی ہے ،ْ پانی کے مسئلے پر پانچ سالوں میں یہ لوگ جواب تک نہیں دیتے تھے۔ آج ان کو پانی کا ایشو بھی یاد آگیا۔ اپوزیشن نے اگر ہر مسئلہ پر سیاست کرنی ہے تو کھیل لیں ہم بھی تیار ہیں لیکن اگر سنجیدگی دکھانا ہے تو آئیں مل بیٹھیں مگر خدارا لوگوں کے خاندان پر حملہ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مینگل صاحب نے اچھی تقریر کی ہے‘ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کے مسائل کو حل نہیں کیا وہاں پر استحصال ہوتا رہا۔

ہمارا وژن اور ارادہ ہے کہ بلوچستان اور گوادر کی ترقی کے ثمرات عام بلوچ تک پہنچائیں گے ،ْہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان میں ترقی کے عمل کو آگے بڑھائے‘ بلوچستان کی ترقی اور مسائل کے حل کے لئے باہر بیٹھ کر فیصلے نہیں کریں گے‘ بلوچوں کو شیئر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اختر مینگل نے جن سیاسی مسائل کا ذکر کیا ہے اس کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے ،ْ لاپتہ افراد کے معاملے کو اتفاق رائے سے حل کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عندلیب عباس نے ضمنی مالیاتی (ترمیمی) بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مقروض ملک کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا‘ 2008ء اور 2013ء میں قرضوں کی شرح بڑھ کر ایک ارب سے 13 ہزار ارب تھی۔ 2015ء تک یہ 28 ہزار ارب پہنچی۔ روزانہ پاکستان چھ ارب قرضہ واپس کر رہا ہے۔ ہماری معیشت انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہے‘ اس وقت جو حالات ہیں اس کی ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر عائد ہوتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں روٹی‘ کپڑا‘ مکان کا نعرہ دیا گیا ہے وہ پورا نہیں کیا گیا۔ پھر گیس‘ بجلی اور پانی کا کیا گیا ہے۔ 2013ء میں سوئی ناردرن‘ سدرن منافع میں تھی 2018ء میں دونوں ادارے خسارے میں ہیں۔ ہم نے اسلام آباد میں دس دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ دیکھی ہے‘ اپوزیشن نے بھاشا ڈیم کے لئے اراضی کی خریداری کی بات کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاشا ڈیم کے لئے پچھلے پانچ سالوں میں صرف سات ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔

2013ء میں بجلی کی قلت 6500 میگاواٹ تھی‘ جو جون 2018ء میں 7ہزار میگاواٹ سے بڑھ گئی تھی۔ ہمیں بتایا جائے کہ ان کے لگائے گئے پراجیکٹس کی بجلی کہاں گئی۔ جب تک ہم اپنی بنیادوں کو درست نہیں کرتے اس وقت تک معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ میٹرو بسیں اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کے لئے قرضے لے کر معیشت کو ترقی دینے کی پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے۔

سستی روٹی ‘ میٹرو ٹرین‘ قرض اتارو جیسے اقدامات سے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ عندلیب عباس نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے انسانی بہبود اور ترقی پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی علامتوں کی بات کی گئی ہے لیکن آئین اور قانون کا یہ لوگ خود مذاق اڑاتے ہیں۔ 2004ء کے ایکٹ کے تحت جی ڈی پی کے تناسب سے 60 فیصد سے زائد قرضے نہیں لئے جاسکتے لیکن آج دیکھیں کہ یہ شرح 70 فیصد ہے‘ یہاں کسی کو آئین اور قانون یاد نہیں رہا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں