ایف آئی اے کو انسانی سمگلنگ میں ملوث پیشہ ورخواتین و مردوں کی جانب سے چلائے جانے کا انکشاف

ایڈیشنل دائریکٹر سائبر کرائم لاہور کیخلاف تحریری درخواستڈی جی ایف آئی اے کو موصول ہوگئی

پیر 15 اکتوبر 2018 21:22

ایف آئی اے کو انسانی سمگلنگ میں ملوث پیشہ ورخواتین و مردوں کی جانب سے چلائے جانے کا انکشاف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 اکتوبر2018ء) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کو انسانی سمگلنگ میں ملوث پیشہ ور عورتوں اور مردوں کی جانب سے چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایف آئی اے کے سینئر افسران کے سنسنی خیز انکشافات نے ادارے کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ ایف آئی اے کے سینیئر افسران اور جونیئرز آمنے سامنے آگئے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر گجرات کے بعد ایڈیشنل دائریکٹر سائبر کرائم لاہور کے خلاف بھی تحریری درخواست ڈآئریکٹر جنرل ایف آئی اے کو موصول ہوگئی۔

انسپکٹر ‘ سب انسپکٹر سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ سمیت سولہ ماتحت افسران اور اہلکاروں کی درخواستوں نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرنے والے افسر پر سنگین الزامات عائد کردیئے۔ درخواست میں ایڈیشنل ڈائریکٹر کے ٹیلی فون میسیج کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر رضوان نے بداخلاقی کی زبان استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے قبل ایف آئی اے کو پیشہ ور عورتیں اور مرد چلا رہے تھے۔

(جاری ہے)

درخواست کے متن کے مطابق گیارہ اکتوبر کو تقریباً تین بجے ڈائریکٹر صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا کمرے میں مہمان ڈائریکٹر سید فرید علی ساہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ‘ خالد انیس ڈپٹی ڈائریکٹر بھی وہاں موجود تھے ۔ یہاں ڈاکٹر رضوان نے ہراساں کرتے ہوئے دھمکیاں اور گالیاں دینا شروع کردیں۔ مورخہ تین اکتوبر 2018 ء کو ڈائریکٹر موصوف نے انکوائری نمبر 540/17 میں مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر فرمایا تاہم مدعیہ کی اجازت سے جو کہ اس دن آفس میں موجود تھی۔

تاکہ قانونی تقاضے پورے کئے جاسکین مدعیہ نے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کارروائی کرنے پر زور دیا۔ بعد ازاں ایڈیشنل ڈائریکٹر نے سٹاف کے سامنے ملزم کو نہ صرف پروٹوکول کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی بلکہ ملزم کو غیر قانونی طور پر چھوڑے جانے کے باوجود سٹاف کو گالیاں دیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے نے ریڈنگ ٹیم کے افسران کو ملزم ندیم کیانی سے معافی مانگنے پر مجبور کیا۔

درخواست کے متن کے مطابق مورخہ 29 ستمبر 2018 ء کو مقدمہ نمبر 59/17 میں ملزم منیر ارشد کی گرفتاری کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایات دیں۔ جس کے لئے حساس اداروں سے تعاون کی یقین دہانی کے بعد میٹنگ طے ہوئی۔ میٹنگ کے دوران ڈاکٹررضوان نے سائبر کرائم کے افسران کو فوری طور پر میٹنگ چھوڑ کر واپس آنے کا نا صرف حکم دیا بلکہ سینئر افسران کے بارے میں نازیبہ زبان استعمال کی جو کہ الفاظ کا حصہ نہیں بنائے جاسکتے۔

درخواست میں مذکورہ بالا ایف آئی ا ے کے افسران اور اہلکاروں نے کام کرنے سے معذرت کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کا حکم دینے کی استدعا کردی۔ ڈی جی ایف آئی اے کو درخواست دینے والے افسران اور اہلکاروں میں محمد عثمان سرکل انچارج محمد سرفراز ‘ خالد سعید ‘ آصف جاوید اور دیگر کے نام شامل ہیں۔ واضح ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان بطور ایس ایس پی آپریشن اسلام آباد میں بھی خدمت سرانجام دے چکے ہیں۔ لیگی دور حکومت نے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو دی جانے والی درخواست کے متن اور الزامات کے حوالے سے ڈاکٹر رضوان ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کی جانب سے بات کرنے سے گریز کیا گیا اور موبائل بند کردیا گیا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں