پچھلے پانچ سالوں کے دوران کوئی نئے ذخائر دریافت نہیں ہوئے ،ْ موسم سرما میں گیس کی قلت ہوگی ،ْ وزیر پٹرولیم غلام سرور خان

گردشی قرضے 1200سے زائد ہیں ،ْ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل مدتی اقدامات کئے جائیںگے ،ْ دیا مر بھاشا ڈیم کے قصے بھی 2000ء سے ہم سنتے آرہے ہیں ،ْ جنرل (ر) پرویز مشرف، آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نے باری باری سنگ بنیاد رکھا ،ْمنصوبہ بھی ابھی تک کاغذات میں ہے ،ْ انرجی فورم کے انعقاد سے توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی ،ْ وفاقی وزیر کا انرجی فورم 2018ء کے افتتاحی سیشن سے خطاب

بدھ 17 اکتوبر 2018 22:18

پچھلے پانچ سالوں کے دوران کوئی نئے ذخائر دریافت نہیں ہوئے ،ْ موسم سرما میں گیس کی قلت ہوگی ،ْ وزیر پٹرولیم غلام سرور خان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اکتوبر2018ء) وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل غلام سرور خان نے کہاہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران کوئی نئے ذخائر دریافت نہیں ہوئے ،ْ موسم سرما میں گیس کی قلت ہوگی ،ْ گردشی قرضے 1200سے زائد ہیں ،ْ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل مدتی اقدامات کئے جائیںگے ،ْ دیا مر بھاشا ڈیم کے قصے بھی 2000ء سے ہم سنتے آرہے ہیں ،ْ جنرل (ر) پرویز مشرف، آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نے باری باری سنگ بنیاد رکھا ،ْمنصوبہ بھی ابھی تک کاغذات میں ہے ،ْ انرجی فورم کے انعقاد سے توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی ۔

بدھ کو یہاں انرجی فورم 2018ء کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمیں آگے سمت کا تعین کرنا ہے۔

(جاری ہے)

وزیر پٹرولیم نے کہاکہ توانائی کے بحران کی وجہ سے ہماری صنعتوں پر بھی دبائو بڑھا ہے۔ نیلم جہلم منصوبے کا ابتدائی تخمینہ 80 ارب روپے تھے، 10 سالوں میں اسے مکمل کیا جانا تھا لیکن یہ 20 سالوں میں 500 ارب روپے سے مکمل ہوا ہے۔ وزیر پٹرولیم نے کہا کہ60 کی دہائی میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا گیا ہے، تین ڈیم بھارت اور تین ہمارے حصے میں آئے۔

تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے بڑے منصوبے اسی عشرے میں مکمل ہو ئے لیکن بعد میں کوئی نیا ڈیم نہیں بن سکا۔ کالا باغ ڈیم کو بھی سیاسی رنگ دے دیاگیا اور اس پر سیاست ہاوی ہو گئی۔انہوںنے کہاکہ دیا مر بھاشا ڈیم کے قصے بھی 2000ء سے ہم سنتے آرہے ہیں ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف، آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف نے اس کا باری باری سنگ بنیاد رکھا لیکن یہ منصوبہ بھی ابھی تک کاغذات میں ہے۔

انہوںنے کہاکہ90 کی دہائی میں آئی پی پیز لائے گئے لیکن ان میں بھی شفافیت نہیں تھی۔ ہم پانی سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے تھرمل نظام پر منتقل ہو گئے، پھر جب گیس کا بحران پید اہوا تو ٹرمینلز لگائے گئے ، نیب اور ایف آئی میں ان کے معاملات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی اور عزم کے بغیر کام ہوتا رہا چونکہ اس وقت ذمہ داروں کی نیت ٹھیک نہیں تھی اسی وجہ سے پیشرفت نہیں ہوئی ۔

اب ہم صورتحال کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ 2013ء میں گردشی قرضہ 480ارب روپے تھا جو اب 1200 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ ہم متعلقہ فریقین کی مشاورت اور درست فیصلوں کی بدولت آگے بڑھیں گے۔ تیل اور گیس کی تلاش کے لئے 90 کے عشرے کے لائسنس بھی جن لوگوں کے پاس تھے انہوں نے کام نہیں کیا۔ ہم آئندہ نسلوں کے لئے کچھ کرناچاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں مختصر درمیانی اور طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دینا ہے۔

انرجی فورم کے انعقاد سے توانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی اور امید ہے کہ اس سے مثبت تجاویز سامنے آئیں گی۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی چیئرپرسن عظمیٰ عادل خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اوگرا صارفین کے مفادات کے تحفظ ، مسابقت کے فروغ ، سرمایہ کاروں کو مساوی مواقع فراہم کرنے، مؤثر ریگولیشن اور نجی سرمایہ کاروں کے فروغ کے لئے سہولت کنندہ کاکردار ادا کررہا ہے، اپ سٹریم، مڈ سٹریم اور ڈائون سٹریم معاملات کو ضم کرنے سے کارکردگی میں بہتری آئے گی ۔

انہوں نے کہا کہ متعلقہ فریقین کی مشاورت سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپ سٹریم ، مڈ سٹریم اور ڈائون سٹریم معاملات کو ضم کردیںتو یہ نظام کے لئے مفید ہو گا۔ اس کے لئے ای سی سی کی منظوری درکار ہے۔ اوگرا اپنی ذمہ داریاں بھر پور طریقے سے نبھا رہا ہے اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لئے تمام ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر الیاس فاضل نے کہا کہ 2016-17ء میں ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی طلب 26 ملین ٹن تھی جو 2029-30ء میں بڑھ کر 50 ملین ٹن ہو جائے گی، مختصر درمیانی اور طویل مدت کی پالیسیاں چیلنجوں پر قابو پانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔

انہوں نے کہاکہ ملک میں آئل ریفائنریوں کی پیداواری گنجائش 19.39 ملین ٹن ہے اور ملک میں قائم آئل ریفائنریاں 40 فیصد ضرورتی پوری کررہی ہیں اور باقی کے لئے ہمیں تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ انرجی سکیورٹی اور ملک میں تیل اور گیس میں اضافہ ایک چیلنج ہے ۔ اس کے لئے ہمیں مختصر درمیانی اور طویل المدتی پالسیاں بنانی ہوںگی۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ اور آئندہ پٹرولیم پالیسیوں میں قیمتوں اور ریگولیشن کے حوالے سے تسلسل رکھنا ضروری ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں