سپریم کورٹ نے لاہورکے سول اور کنٹونمنٹ علاقوں میں لگائے گئے تمام بڑے بل بورڈز اور ہورڈنگز ڈیڑھ ماہ کے اندر ہٹانے کا حکم جاری کر دیا،

پبلک پراپرٹی پر کسی کوبھی بورڈ لگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ فٹ پاتھوں پر نصب کھمبوں سے لگے بل بورڈ انسانی جانوں کیلئے بھی خطرہ ہیں،کراچی میں بل بورڈ ہٹانے کے حوالے سے جاری حکم یہاں بھی نافذکردیا جائے گا ،عدالت

بدھ 17 اکتوبر 2018 23:33

سپریم کورٹ نے لاہورکے سول اور کنٹونمنٹ علاقوں میں لگائے گئے تمام بڑے بل بورڈز اور ہورڈنگز ڈیڑھ ماہ کے اندر ہٹانے کا حکم جاری کر دیا،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ نے لاہورکے سول اور کنٹونمنٹ علاقوں میں لگائے گئے تمام بڑے بل بورڈز اور ہورڈنگز ڈیڑھ ماہ کے اندر ہٹانے کا حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ پبلک پراپرٹی پر کسی کوبھی بورڈ لگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ فٹ پاتھوں پر نصب کھمبوں سے لگے بل بورڈ انسانی جانوں کیلئے بھی خطرہ ہیں،کراچی میں بل بورڈ ہٹانے کے حوالے سے جاری حکم یہاں بھی نافذکردیا جائے گا ،بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس فیصل عرب پرمشتمل تین رکنی بینچ نے لاہور میں بل بورڈز کے حوالے سے کیس کی سماعت کی، ا س موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور میں واقع مختلف پارکس، ریلوے کی حد ود ، پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ ای)، کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کی حدود میں بڑے بڑے بل بورڈز لگے نظرآتے ہیں، آخر یہ بورڈکس کی اجازت سے لگائے گئے ہیں ، عدالت بل بورڈ اورہورڈنگز ہٹانے کے بارے میں کراچی میں بھی حکم دے چکی ہے کہ سڑکوں سے بل بورڈ ہٹائے جائیں، ہم نے جوحکم وہاں جاری کیا گیا تھا وہ یہاں لاہور میں بھی لاگو کیا جائے گا'۔

(جاری ہے)

یہ عام فہم سی بات ہے کہ پبلک پراپرٹی پر بل بورڈز نہیں لگائے جاسکتے، اگر کسی نے بل بورڈ وغیرہ لگانے ہیں تو وہ ذاتی پراپرٹی پر لگائے، ان کا مزید کہنا تھا کہ بل بورڈ ہٹانے کی وجہ سے کراچی بہت صاف ستھرا ہو گیا ہے، ہم کراچی کے فیصلے کو پورے ملک میںنافذ کردیں گی' تاکہ سرکاری مقامات کوان چیزوں سے صاف کیاجاسکے ،اس موقع پر پی ایچ اے کے وکیل نے پیش ہوکرعدالت کوبتایا کہ 'ہم نے کوئی بل بورڈ پبلک پراپرٹی پر نہیں لگایا ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ فٹ پاتھ عوام کی آمد ورفت کیلئے ہوتے ہیں، جن پر جگہ جگہ بل بورڈز کے لئے بڑے بڑے کھمبے نصب کئے جاچکے ہیں،سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح سڑکوں پربل بورڈز کی اجازت دے سکتے ہیں ، سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جن فٹ پاتھوں پربل بورڈ لگائے گئے ہیں وہ انسانی جانوں کے لئے بھی خطرہ ہی'۔

جس پر ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ ہم لوگوں کو قانون کے مطابق بل بورڈز کی اجازت دیتے ہیں ہم نے کسی کوآج تک غیرقانونی طورپر بل بورڈ لگانے کی اجازت نہیں دی ،سماعت کے دوران عدالت کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے وکیل نے پیش ہوکو بتایا کہ این ایچ اے کی پراپرٹی پر بھی بل بورڈز لگائے گئے ہیں'۔ جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا این ایچ اے کوئی پرائیویٹ کمپنی ہے کہ اس کی پراپرٹی پربل بورڈ لگائے گئے ہیں این ایچ اے خود کارروائی کیوں نہیں کرتی ، عدالت کو کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل لطیف کھوسہ نے پیش ہوکر بتایا کہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ میں معیار کے مطابق بل بورڈ لگائے جاتے ہیں، ہم بل بورڈز کی کمائی سے ہسپتال چلاتے ہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ کمائی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، یہی بل بورڈز انسانی جانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں، اور کنٹونمنٹ بورڈ بھی پاکستان کا حصہ ہی' اس میں بل بورڈز کی روک تھا م ہونی چاہیے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ بل بورڈز شہر کے لینڈ اسکیپ کو آلودہ کرتے ہیں بعد ازاں عدالت نے ڈیڑھ ماہ کی مدت میں تمام سول اور کنٹونمنٹ علاقوں سے بل بورڈز اور ہورڈنگز ہٹانے کا حکم جاری کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں