کسی بھی منتخب رکن کو اس وقت تک زندگی بھر کے لیے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس پر بددیانتی کا الزام ثابت نہ ہوجائے. سپریم کورٹ

خواجہ آصف کی نااہلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پٹیشن پر سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 20 اکتوبر 2018 10:15

کسی بھی منتخب رکن کو اس وقت تک زندگی بھر کے لیے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس پر بددیانتی کا الزام ثابت نہ ہوجائے. سپریم کورٹ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 20 اکتوبر۔2018ء) پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ آصف کی نااہلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پٹیشن پر سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے. تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی منتخب رکن کو آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت اس وقت تک زندگی بھر کے لیے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس پر بددیانتی کا الزام ثابت نہ ہوجائے.

جسٹس فیصل عرب کے لکھے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف کے اطلاق سے پارلیمنٹ کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ اثاثے نہ ظاہر کرنے جیسی بھول کے لیے ایک منتخب رکن کو ہمیشہ کے لیے ناہل قرار دے دیا جائے.

(جاری ہے)

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اپریل کو خواجہ آصف کو امارتی کمپنی کی جانب سے لی گئی تنخواہ نہ ظاہر کرنے پر آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا.

اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دی گئی درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان پر بدعنوانی، دھوکہ دہی، غبن، دولت کا ناجائز استعمال ، منی لانڈرنگ، عوامی املاک یا وسائل کو نقصان پہنچانے یا ذاتی مفاد کے لیے عوام کے دیے گئے اختیار کا غلط استعمال کرنے کا کوئی الزام نہیں. سپریم کورٹ میں اس درخواست کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکن بینچ نے کی تھی.

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ تمام طرح کے اثاثے ظاہر نہیں کرنے کو ایک ہی تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، ہماری نظر میں اس سلسلے میں کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا جاسکتا جس کے تحت کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر کیے گئے اثاثوں میں ہونے والی کوتاہی کو جواز بنا کر کسی بے ایمان قرار دینا اور اس کے تحت زندگی بھر کے لیے نااہل کیے جانے کی سزا دی جائے.

خواجہ آصف کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ ان کی نااہلی کے لیے ابو ظہبی کے نیشنل بینک میں موجود اکاﺅنٹ میں 5 ہزار درہم کو جواز بنایا گیا. خواجہ آصف نے عام انتخابات کے لیے جمع کروائے گئے کاغذاتِ نامزدگی میں کسی غلطی کی بنا پر اثاثوں کی فہرست میں مذکورہ اکاﺅنٹ کا ذکر نہیں کیا البتہ2015 میں آر او پی اے کے سیکشن 42 اے کے تحت جمع کروائے گئے اثاثوں کی تفصیلات میں انہوں نے اس کا ذکر کیا تھا.

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ مذکورہ اکاﺅنٹ کی مکمل بینک اسٹیٹمنٹ ریکارڈ پر موجود ہے جس کے مطابق درخواست گزار نے 17 اپریل 2010 کو یہ اکاﺅنٹ 5 ہزار درہم کی رقم سے کھولا اور 5 سال بعد 7 جولائی 2015 کو بند کردیا. چناچہ اس معاملے میں نہ تو مفادات کا ٹکراو موجود ہے نہ ہی اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی کرنا پایا گیا.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں