ایوان بالا کی کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس

غیر امتیازی سلوک پارلیمنٹرین کے ساتھ وکلاء برادری کے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے، سینیٹر محمد علی سیف قانون کی نظر میں تمام انسانوںکے مساوی حقوق ہیں،گورنر اسٹیٹ بنک آئندہ اجلاس میں پارلیمنٹرین کو پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں آگاہ کرے،چیئرمین کمیٹی

منگل 23 اکتوبر 2018 20:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اکتوبر2018ء) ایوان بالا کی کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محمد علی خان سیف کے عوامی اہمیت کے مسئلہ برائے وکلاء اور پارلیمنٹرین کو بینک اکائونٹ کھلوانے میں درپیش مسائل ،ایف بی آر کی طرف سے وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد کسٹم ٹیرف میں کی گئی اچانک تبدیلیاں،گورنمنٹ کی طرف سے 25ویں ترمیم کے موقع پر فاٹا کی عوام کے لیے ٹیکس ریلیف پر عملدرآمد کے طریقہ کار،تمباکو پیدا کرنے والوں کے لیے ٹریک سسٹم، کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے معاملات کے علاوہ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی اور اس کے معیشت پر اثرات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ 5 ماہ پہلے انہوں نے اپنی صاحبزادی کا بنک اکائونٹ کھلوانے کیلئے درخواست دی مگر ابھی تک اکائونٹ نہیںکھولا گیا بے شمار چیزوں کی تصدیق بھی کروا چکے ہیںمیرے تمام اثاثوں کا ریکارڈ بھی ایف بی آر کے پاس موجود ہے ۔1993 سے ٹیکس ادا کر رہا ہوں ہماری بنک ٹرانزیکشن تک روک لی جاتی ہے ۔یہ غیر امتیازی سلوک پارلیمنٹرین کے ساتھ ساتھ وکلاء برادری کے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے ۔

رکن کمیٹی سینیٹر مصدق مسعود ملک نے کہا کہ 5 ماہ ہو گئے کریڈیٹ کارڈ کی درخواست دی تھی 50 کے قریب انٹرویو بھی ہو گئے ہیں مگر کام نہیں ہو سکا ۔ تمام سسٹم کو ای سسٹم پر منتقل ہونا چاہیے ۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اسٹیٹ بنک ریگولیٹر ہے جن بنکوںکے خلاف شکایات ہیں ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے ۔ جس پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں پہلے بھی اٹھایا گیا ہے کوئی بنک امتیازی سلوک نہیںکرتا ۔

پارلیمنٹرین کے ایشوز کے حل کیلئے ہر بنک میں ایک فوکل پرسن تقررکیا گیا ہے اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو اسٹیٹ بینک میں بھی ایک سیل قائم کیا گیا ہے اور اس حوالے سے ایک میکنزم بھی کام کر رہا ہے ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے ۔ پارلیمنٹرین اور عام عوام کے بنیادی حقوق کامسئلہ ہے ۔ قانون کی نظر میں تمام انسانوںکے مساوی حقوق ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بنک آئندہ اجلاس میں پارلیمنٹرین کو پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں آگاہ کرے۔ چیئرمین ایف بی آر نے قائمہ کمیٹی کوبتایا کہ وفاقی بجٹ2018-19 کی منظوری کے بعد 4 چیزوں کے ٹیرف میں تبدیلی کی گئی جس میں کاپر سکریپ ، چاول کی ایمپورٹ ، کاٹن وغیرہ شامل ہیں ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ فاٹا کی عوام کو ضم ہونے سے پہلے والی پوزیشن کی طرح سیلز ٹیکس ،انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ 5 سال کیلئے دی گئی ہے ۔

فاٹا میں 1.23 لاکھ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوئی اور بلوچستان سے 6 ہزار گاڑیوں کی رجسٹریشن کرائی گئی یہ آفر ستمبر2018 تک تھی۔جس پر سینیٹر اورنگزیب خان نے کہا کہ بجٹ کے موقع پر بھی استثنیٰ 10 سال تک دینے کا کہا تھا بہتر یہی ہے کہ زمینی حقائق جاننے کیلئے وہاں کا سروے کرایا جائے ۔ سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ پہلے بھی استثنیٰ ایک مدت کیلئے تھی اور پھر اس میں اضافہ کیا گیا ۔

انہوںنے کہا کہ اس ریلیف کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے بھی جائزہ لینا چاہیے ۔ صنعت اور سروسز پر ٹیکس فری سے اس کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے ۔سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ فاٹا میںویلیو ایڈیشن کا نظریہ ہونا چاہیے ۔انہوںنے کہا کہ فاٹا کی صورتحال پہلے اور تھی اب وہ صوبے کا حصہ ہے پہلے وہاںملک کے قوانین لاگو نہیں ہوتے تھے ۔ تمباکو کی پیدا وار کی ٹریس سسٹم کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ مسئلہ2017 سے چل رہا ہے بہتری کیلئے پالیسی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔

پیپرا سے رائے حاصل کرنے کیلئے مسئلہ بھیجا ہوا ہے پھر فیصلہ کیا جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سنگل بڈ کی ممانعت نہیں ہے اس حوالے سے ایک سنگل بڈ آئی تھی اور بڈ کے اندر کچھ تکنیکی مسائل بھی ہیں ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسئلے کو حل نہیںکیا گیا اس کو کب تک حل کرنا ہے اس حوالے سے 15 دن کے اندر کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے ۔

کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے حوالے سے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی نے تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ہدایت کی کہ ادارے کی تقرریاں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کبینٹ کی منظوری سے عمل میںلائی جائیں ۔ قائمہ کمیٹی نے روپے کی قدر میںکمی اور اس کے معیشت پر ہونے اثرات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا ۔

ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک نے کمیٹی کوبتایا کہ تجارتی خسارے میںکمی ، ایکسپورٹ میں تیزی ، ایمپورٹ میں کمی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کو بہتر کرنے کیلئے روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر میںکمی کی گئی اس سے 6 ماہ سے ایک سال تک مثبت نتائج سامنے آئیںگے ۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ 3 سال پہلے بھی تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ گیا تھا یہ پہلے کیوں نہیںکیا گیا ۔

ایک فرد واحد سابق وزیر خزانہ نے کیا انہوںنے مصنوعی طور پر اسے روکا ہوا تھا ۔ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کیوں نہیںکیے گئے ۔ملک میںصرف ایکسپورٹ کی صنعت ہی نہیں ہے ۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ 2013 سی2016 تک کرنٹ اکائونٹ ٹھیک تھی2016 کے آخر میں مسائل آنا شروع ہوئے اور اس وقت پیڑولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کم تھیں۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آئندہ اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بنک قائمہ کمیٹی کو تفصیلی آگاہ کریں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز مصدق مسعود ملک ، عائشہ رضا فاروق ، محمد اکرم ، محسن عزیز ، اورنگزیب خان، محمد علی خان سیف اور فدا محمدکے علاوہ سیکرٹری خزانہ ، چیئرمین ایف بی آر ، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک اور دیگر حکام نے شرکت کی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں