شریف خاندان کی سزا معطلی کا معاملہ

سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 12 نومبر 2018 14:36

شریف خاندان کی سزا معطلی کا معاملہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 12نومبر 2018ء) :سپریم کورٹ میں شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف نیب اپیل پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ معاملہ ضمانت کا نہیں سزا معطلی کا ہے۔ابھی ہم نے نیب کی اپیل سماعت کے لیے منظور نہیں کی۔چیف جسٹس خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی ضمانت والا فیصلہ قائم رکھتے ہیں۔

اگر ہم اس کیس کو قابل سماعت قرار دیں اور ضمانت برقرار رکھیں گے تو سزا معطلی والا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔دیکھ لیتے ہیں کہ معاملے پر لارجر بینچ بنانا ہے یا نہیں۔یہ اصول دیکھنا ہے کہ اپیلوں کی سماعت سے پہلے سزا معطلی سے کیس کا میرٹ تو متاثر نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے نیب پراسیکوٹر سے کہا کہ اپنے نکات لکھ کر دیں۔آپ کو گذشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ اپنے پوائنٹس تحریری طور پر دیں۔

ہم نے قریقین نے تحریر معروضات مانگی تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث نے تفصیلی جواب دیا ہے۔خواجہ حارث نے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی۔دیکھتے ہیں کہ لارجر بینچ بننا ہے یا اسی بینچ نے سننا ہے۔اس کا فیصلہ فریقین کی تحریری معروضات کی روشنی میں کریں گے۔ہم نے نمبر کے ساتھ مفروضات طلب کی تھیں یہ مقدمہ سماعت منظوری کا ہے۔سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب کی اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔

عدالت نے لارجر مبینچ تشکیل دینے کے لیے وکلاء سے تحریری مفروضات مانگ لیں۔عدالت نے سماعت 12دسمبر تک ملتوی کر دی۔خیال رہے گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے کہ یہ کسی ایک شخص کا کیس نہیں ہے۔اصل معاملہ عدالتی فیصلے سے وضع کا اصول ہے۔ اور کہا کہ ہائیکورٹ نے نے میرٹ اور شواہد پر فیصلہ دیا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا،اس لیے آج آنا مناسب سمجھا،مقدمے کی سمت کا تعین ہو جائے تو مزید مقدمہ اگلی سماعت تک موخر کر دیں۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثے درست طریقے سے بنائے یا نہ ہونے سے متعلق یہ مقدمہ مکمل تحقیقات کا تقاضہ کرتا ہے کیونکہ اثاثے نواز شریف کے بڑے بیٹے کی ملکیت ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا یہ بات ثابت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔کیا من و سلویٰ اترا تھا،اثاثے ہوا میں نہیں آئے ہوں گے ،کیا ہوا میں اثاثے بن گئے؟۔وکیل صفائی نے کہا کہ اس سلسلے میں آپ کو قانون بتاؤں گا،جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا کہ قانون وہ ہے جو ہم ڈکلئیر کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاناما اسکینڈل کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہئیے تھا۔ سپریم کورٹ کو خود دستاویزات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا چاہئیے تھا۔سپریم کورٹ نے مقدمہ ٹرائل کورٹ بھیج کر مہربانی کی،چار مرتبہ موقف تبدیل کیا گیا ،پہلے قطری اور پھر بعد میں دوسرا مقوف اختیار کیا۔چیف جسٹس نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر ریمارکس دئیے کہ ہائی کورٹ نے مقدمے کے تمام حقائق پر بات کی،کیا ہائیکورٹ نے ضمانت کی درخواست پر حتمی فیصلہ دیا؟کیا ضمانت دینے کا فیصلہ ایسے ہوتا ہے؟ ہائیکورٹ کے فیصلےکی آخری سطر دیکھیں،ہائیکورٹ نے کس طرح سے الفاظ استعمال کیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر ماضی کے فیصلوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔بظاہر ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔کیا ایسی کوئی مثال ہے جس میں نیب کورٹ کے فیصلے کے نقائص بیان کیے گئے ہوں۔جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے سوال کیا تو مجھے جواب دینے کی اجازت دیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے نکات اور معروضات ہمیں لکھ کر دیں۔آپ کو دلائل کے لیے صرف ایک ہی دن ملے گا۔شریف خاندان کی سزا کے خلاف نیب کی اپیل کی سماعت 12 نومبر تک ملتوی کی تھی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں